شیخ الازہر اپنے رمضان پروگرام کی نشستوں میں اسماء حسنیٰ کی تشریح کرتے ہیں۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب شیخ الازہر اس سال کے اپنے رمضان پروگرام " شیخ الازہر کی گفتگو" میں اسمائے حسنیٰ کی تشریح کرتے ہیں، بعض سامعین کہ دل میں اسمائے حسنیٰ سے متعلق سوالات پیدا ہوتے ہیں اور اسی طرح آج کی خوف و اضطراب کی عالمی فضا میں ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔۔ کیا ایک پروگرام مقتدیوں نفسیاتی دباؤ میں مبتلا لوگوں ہلکا کر سکتا ہے؟ امام اکبر جواب دیتے ہیں کہ اللہ کے ناموں میں غور و فکر کرنے اور ان کے ساتھ کرنے سے ممکن ہے اور اسمائے حسنی کے ساتھ مناجات دنیا کی تھکاوٹ، تکلیفوں اور امن و خوف، جنگ و سلامتی، امید و مایوسی، امیری و غریبی، تندرستی و بیماری، نعمت اور محرومی کے بیچ جھولتی دنیا میں اہل ایمان کی ہمتوں کو بڑھاتی شاید یہی آخری امید ہے۔
امام اکبر مزید فرماتے ہیں کہ اسمائے حسنیٰ کے ساتھ دعا کرنا ایک عبادت ہے، جس کا حکم اللہ نے اپنی کتاب کریم میں دیا ہے، سورت اعراف میں اللہ کا ارشاد ہے:" اور اچھے اچھے نام الله ہى كے لے ہيں سو ان ناموں سے الله ہى كو موسوم كيا كرو اور ايسے لوگوں سے تعلق بھى نہ ركھو جو اس كے ناموں ميں كج روى كرتے ہيں، ان لوگوں كو ان كے كئے كى ضرور سزا ملے گى-
" [الاعراف:180]، سورت اسراء میں اللہ کا ارشاد ہے: كہہ ديجيئے كہ الله كو الله كہہ كر پكارو يا رحمن كہہ كر، جس نام سے بھى پكارو تمام اچھے نام اسى كے ہيں۔ ۔ [ الاسراء: 110]، اور اسی طرح بخاری اور مسلم کی روایت ہے: اللہ کے سوسے ایک کم 99 نام ہے، جس نے انہیں شمار کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔۔۔ اس آیت سے ہم جان سکتے ہیں کے اسمائے حسنی کے ساتھ دعا کرنا، اپنی ضرورتوں اور مشکلات کے لیے انہیں وسیلہ بنانا اہل ایمان کے لئے کا واضح حکم ہے، شیخ الازہر نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کے اسمائے حسنیٰ معرفت خداوندی کی کھڑکیاں ہیں جن سے اکثر لوگ غافل ہیں، اسمائے حسنیٰ نہ ہوتے تو ہم اللہ کی ذات و صفات اور اس کے افعال کو نہ جان پاتے، جب تم قرآن کریم میں اللہ کے کلمات کو نہیں سنتے تمہارے اعتقاد میں وحی خداوندی ہے جس کے آگے اور پیچھے سے باطل نہیں آسکتا، جب تم احد، قادر، مرید، علیم، سمیع و بصیر، غفار ولطیف، ملک، سلام اور مہیمن جیسی صفات نہیں سنو گے تو آپ کی عقل اس ذات کے بارے میں کوئی علمی و ذہنی تصور کیسے قائم کر سکتی ہے، جس کی آپ عبادت کرتے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے۔ اللہ کی ذات غیب ہے جسے کسی بھی عقلی یا حسی وسیلے سے نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ادراک کیا جا سکتا ہے، وہ ذات کہ محدود علمی عقلی شعوری اور حسی ادراک سے مطلق پردے میں ہے اور ہمیشہ موجود اور باقی ہے۔ امام اکبر نے مزید کہا کہ اللہ کے نام وہ کھڑکیاں ہیں جن کے ذریعے سے ہم اس معبود کی صفات اور اس کے ناموں کا عقلی ادراک کر سکتے ہیں اور تخلیق، رزق، زندگی، موت اور کائنات میں تصرف جیسے اس کے افعال کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ آیات کریمہ اور حدیث شریف میں دقیق اور گہرے علمی مباحث موجود ہیں ،جنہیں عام لوگوں کے لئے سمجھنا مشکل ہے، اسی لیے ہم ان عام احکامات کو بیان کریں گے جن کا سمجھنا آسان ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ایک ایک اسم مبارک کے معنی کما حقہ بیان کریں اور ان اسماء کی بندوں پر تجلیات اور تخلیقی دلالتوں کو واضح کریں اہل ایمان پر واجب ہے کہ نفس و خواہشات اور شیطان کے خلاف خود کو مسلح کر لیں۔ امام اکبر نے آیت وللہ الاسماء الحسنی کے سبب نزول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بعض مشرکین مکہ نے جب مسلمان کو نماز میں یا رحمان یا رحیم کہتے سنا تو ایک مشرک نے کہا: محمد ان کے اصحاب کا کیا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ ایک ہی رب کو پکارتے ہیں، تو پھر یہ دو رب کو کیوں پکار رہا ہے؛ چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری: اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں، چنانچہ ان کے ساتھ اللہ کو پکارو، انہوں نے واضح کیا ہے کہ لفظ حسنی حسن سے ماخوذ ہے، جس کا معنی خوبصورتی اور تابناکی ہے، یہ سننے میں اچھے ہیں، غور کرنے میں اچھے ہیں، دل میں محسوس ہونے کے لحاظ سے اچھے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسمائے حسنی حقیقی طور پر صرف اللہ ہی کے لیے مخصوص ہیں اور یہاں خبر کو مقدم کرنے سے یہی حصر مقصود ہے، اگر اللہ تعالی نے کہاں ہوتا: الاسماء الحسنی للہ تو گمان ہو سکتا تھا یہ نام کسی اور کے لئے بھی رکھے جا سکتے ہیں، مگر جب اللہ نے کہا: وللہ الاسماء الحسنی : خبر کو مبتدا پر مقدم کیا تو اہل عرب اس تقدیم سےتخصیص مراد لیتے ہیں، اور یہ نام صرف اللہ ہی کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: لکم دینکم ولی الدین۔ امام اکبر نے اللہ کے قول: اسے ناموں کے ساتھ پکارو کو واضح کیا ہے کہ: اسے اس نام کے مطابق پکارو، جیسے: اے رحیم! مجھ پر رحم فرما، اے رزاق! مجھے رزق دے، اے ہادی! مجھے ہدایت عطا فرما، اے تو اب! میری توبہ قبول فرما، کچھ نام عمومی ہیں جیسے مالک، عزیز اور لطیف وغیرہ جن کے ساتھ بغیر تخصیص کے عمومی دعا کی جا سکتی ہے، لیکن یہ جائز نہیں ہے کہ کسی نام کے ساتھ دعا کی جائے اور اس دعا کا مفہوم اس نام میں شامل نہ ہو یا اس کے الٹ ہو، آپ یہ نہیں کہیں گے: اے رزاق! مجھے ہدایت دے ،یا اے رحمان! جس نے مجھ پر ظلم کیا اس سے بدلہ لے ، بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ: یا قوی یا عزیز! جس نے مجھ پر ظلم کیا اس سے بدلہ لے۔۔۔
امام اکبر نے اللہ تعالی کے قول وذروا الذین یلحدون فی اسمائہ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کے یہ وہ لوگ ہیں جو حق سے انحراف کرتے ہیں، حق کو جھٹلاتے ہیں اور مشرک ہیں، اور یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے ناموں میں انحراف کرتے ہیں اور انہیں حق اور صواب سے پھیر دیتے ہیں، ملحدین کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے ناموں کو بدل کر اپنے بتوں کے نام رکھ لیے، جیسے: لات لفظ اللہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، عزی عزیز کو، اور منات منان کو بگاڑ کر رکھا گیا ہے، چنانچہ اس آیت کریمہ کی تنبیہ اللہ کے ناموں میں ہر اس الحاد کو شامل ہے جس سے اس کے کسی نام یا صفت میں تبدیلی ہوتی ہے، چاہے وہ زیادتی کی شکل میں ہو یا کمی کی شکل میں، جیسا کہ: اللہ تعالی کو مہندس اعظم کہنا یا اسے دلوں کا رب کہنا وغیرہ وغیرہ، اگرچہ اللہ سے امید ہے کہ وہ نادانستہ خطاؤں پر اپنے بندوں کا مواخذہ نہیں کرے گا۔ شیخ الازہر نے واضح کیا ہے کہ: علماۓ توحید اسمائے حسنی میں الحاد کو صرف مشرکین کی تحریفات تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ یہ وعید عمومی ہے اور ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کا ایسا نام رکھے جو اس کے شایان شان نہ ہو، یا کسی ایسی صفت سے متصف کرے جو انسانوں، فرشتوں، حیوانات، نباتات یا جمادات جیسی مخلوقات کی صفات میں سے ہو، یا اللہ کا ایسا وصف بیان کریں جس سے مخلوقات کے ساتھ اس کی مشابہت لازم آتی ہو۔۔ ان سب پر الحاد کا اطلاق ہوگا جس سے اللہ کی تنزیہ پر حرف آتا ہے اور اس کی ذات، اسمائے حسنی اور صفات کے شایان شان نہیں ہے، اہل سنت والجماعت اس بات پرمتنبہ کرتے ہیں کہ اللہ کو مکمل طور پر منزہ اور حوادث کے مخالف مانا جائے۔