اپنے رمضان پروگرام میں شیخ الازہر کہتے ہیں کہ: اسمائے حسنی بندوں کے ساتھ لفظی سطح پر مشترک ہیں، مگر حقیقی اعتبار سے مشترک نہیں ہیں۔

برنامج الإمام الطيب ٢٠٢٢.jpeg

امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے اپنے رمضان پروگرام "امام طیب" کی دوسری نشست میں اسمائے حسنی کی وضاحت کرتے ہوئے انہیں دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:  ایک وہ نام  ہیں جو صرف اللہ کے ساتھ خاص ہیں، کسی بھی دوسری مخلوق کا  وہ نام نہیں رکھا جا سکتا،  دوسرے وہ نام ہیں جو بندوں اور اللہ کے درمیان مشترک ہیں لیکن ان میں ایک نہایت باریک اور گہرا فرق ہے،  جس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا نام بطور حقیقت استعمال ہوتا ہے  اور بندے کا نام بطور  مجاز رکھا جاتا ہے،  یہ بات  ذہن میں رہے کہ بہت سارے لوگ حقیقی اور مجازی کے فرق کو نہیں جانتے۔  امام اکبر نے اشارہ کیا ہے کہ اسمائے حسنی جو بندوں کے ساتھ مشترک ہیں وہ صرف لفظی طور پر ہیں حقیقت میں  مشترک نہیں ہے،  جیسے اللہ کا نام رازق بندے اور اللہ میں مشترک ہے، لیکن  حقیقت میں رازق صرف اللہ ہے،  اسی طرح  عالم کا اطلاق اللہ سبحانہ و تعالی پر حقیقی طور پر ہوتا ہے،  اس کا علم کامل ہے،  اس سے پہلے جہل نہیں ہے اور نہ ہی وہ علم بدلتا ہے اور نہ  حواس کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے لیکن جب کسی بندے پر عالم کا اطلاق ہوگا تو علم سے پہلے  جہل ہوگا اور وہ علم تبدیل بھی ہوتا ہے اور اس میں غلطی کا بھی امکان رہتا ہے اور اس پر نسیان بھی طاری ہو سکتا ہے،  تو ایک عالم حقیقی ہے اور دوسرا عالم مستعار  ہے،  مخلوق کا ہر عالم جاہل ہے  اور اس کا  جہل علم سے زیادہ ہے،  انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا  کہ  طب کاعالم انجینئرنگ میں جاہل ہوسکتا ہے، فلکیات میں جاہل ہوسکتا ہے،  نحو کا عالم فقہ میں مہارت نہیں رکھتا ہوگا،  چنانچہ انسان کو نقص لازم ہے،  انسان اپنی صفات میں ناقص ہے اگرچہ وہ گمان رکھتا ہے کہ وہ کامل ہے، کیونکہ وہ مخلوق ہے اور مخلوق ناقص اور محتاج ہوتی ہے۔
امام اکبر نے وضاحت کی ہے کہ  کچھ نام ایسے ہیں جن کا اطلاق صرف اللہ پر ہوتا ہے،  اور کچھ نام مشترک ہیں  جن کا  اطلاق بندوں پر بطور مجاز ہو سکتا ہے،  علماء نے وضاحت کی ہے کہ صرف دو نام ہیں جن کا اطلاق بندوں پر نہیں ہوسکتا اور وہ اللہ اور رحمان ہیں،  پوری تاریخ میں کسی کا نام بھی اللہ اور رحمن نہیں ہے، انہوں نے  اشارہ کیا ہے کہ جب علماء نے لفظ اللہ  پر غور کیا تو سب سے منفرد پایا،  لفظ اللہ مشتق نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی اصل ہے،  وہ ایسا علم ہے جو ذات پر دلالت کرتا ہے،  اسی لیے انہوں نے کہا:  الف سے اللہ اسم اعظم ہے کے ساتھ جو بھی دعا کی جائے قبول ہوتی ہیں اور جو بھی مانگا جائے عطا ہوتا ہے۔
انہوں نے صراحت کی ہے کہ کچھ لوگ یا اللہ کے کر دعا کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے اور نہ ان کو ملتی ہے،  انہوں نے ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: بندہ جب کوئی دعا کرتا ہے  اور اس دعا میں کوئی گناہ یا قطع رحمی نہیں ہوتی تو اللہ اس کو تین میں سے ایک چیز عطا فرماتا ہے:  یا اس کی مراد پوری ہو جاتی ہے یا اس دعا کے بدلے کوئی برائی اس سے ہٹ  جاتی ہے، یا اس کا اجر قیامت کے لئے ذخیرہ ہو جاتا ہے،  انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اللہ سے دعا کریں اور اس کا قرب حاصل کریں،  کیونکہ اللہ ہماری دعاؤں سے زیادہ وسیع ہے  اور ہماری ضرورتوں کو پورا  کرنے والا ہے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025