شیخ الازہر کہتے ہیں: اگر ہم اسمائے حسنی میں موجود معانی اور صفات کی پیروی کریں تو ہماری زندگی بہترین ہو سکتی ہے۔

برنامج الإمام الطيب ٢٠٢٢.jpeg

امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے کہا:  اللہ کا نام " القدوس" قرآن میں وارد ہوا ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اسمائے حسنی سے متعلق مفصل روایت میں بھی موجود ہے اور تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے، انہوں نے واضح کیا ہے کہ لفظ قدوس تقدیس سے مشتق ہے جس کا معنی تطہیر اور تنزیہ ہے، کسی شے کی تقدیس کا مطلب اس کو پاک کرنا اور منزہ کرنا ہے کسی بھی ایسی صفت سے جس سے آپ اسے پاک کرنا چاہتے ہیں، اللہ کا نام ہونے کی صورت میں  اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ اپنی ذات، صفات اور افعال میں ان اوصاف سے  پاک اور منزہ ہے جو مخلوق کے ساتھ خاص ہیں، عقل اللہ کے بارے میں کسی بھی صورت کا تصور کرے وہ اس سے پاک اور منزہ ہے اور کسی بھی صورت میں وہ اس  پر منطبق نہیں ہو سکتی،  اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی مخلوق کے وہم، خیال،  محسوسات اور جذبات میں آنے والے کسی بھی تصور سے پاک اور منزہ ہے۔ امام اکبر نے رمضان پروگرام "امام طیب" کی ساتویں نشست میں واضح کیا ہے کہ:  انسانی خیال میں جو کچھ  آ سکتا ہے اللہ اس سے مختلف ہے اللہ ایسا نہیں ہے جس کا ہم تصور کرتے ہیں، اور دلیل اللہ تعالی کا قول ہے: اس جیسا کوئی نہیں ہے اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے،  سمیع اور بصیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کان سے سنتا ہے اور آنکھ سے دیکھتا ہے،  یہ حواس کی صفات ہیں،  اللہ تعالی نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو سنتا ہے اور انہیں دیکھتا ہے، مگر جیسے ہم سنتے اور دیکھتے ہیں وہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی  مقدس ہے اور قدرس کا مطلب مخلوق کی تمام صفات سے پاک اور منزہ ہونا ہے۔ شیخ الازہر نے واضح کیا ہے کہ  قدوس کا مطلب مقدس  ہونا ہے،یعنی اللہ تبارک و تعالی اپنی ذات میں مقدس ہے چاہے مخلوق موجود ہو یا موجود نہ ہو،  اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی نقیض سے کسی بھی صورت متصف نہیں ہو سکتا، اللہ کے لیے ہی مطلق عزت ہے اور وہ اپنی مخلوق کی تمام صفات سے بلند و بالا ہے،  قدوس تقدیس، تطہیر اور تنزیہ سے ماخوذ ہے، یعنی وہ اپنی ذات میں مقدس ہے،  ایسا بالکل نہیں ہے کہ وہ پہلے ایسے نہیں تھا، جب  مخلوق آئی اور اس نے اسے مقدس کہا تو وہ مقدس ہوا۔اس کا مطلب ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی مخلوقات سے پہلے، ان کے ساتھ اور ان کے بعد مقدس  ہے، اسی طرح  لفظ سبوح ہے،  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کرتے تھے:  سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح،  سبوح کا مطلب جو اپنی ذات کی تسبیح کرتا ہے اس سے پہلے کہ بندے اس کی  تسبیح کریں،  ہم جانتے ہیں کہ تسبیح  صرف بندوں تک  محدود نہیں،  بلکہ  چرند پرند اور نباتات و جمادات سمیت ساری کائنات اس کی  تسبیح کرتی ہے،  ہر چیز تسبیح بیان کرتی ہے، اس کا مطلب ہے  کہ کائنات زندہ ہے، انہوں نے اس  بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ازہر یونیورسٹی نے موسمیاتی تبدیلی پر جو کانفرنس منعقد کی تھی اس میں انہوں نے کہا تھا کہ: لوگ سمجھتے ہیں وہ کائنات میں تصرف کر رہے ہیں مگر ایسا نہیں ہے،  انسان اور چیزوں کے درمیان اخوت کا رشتہ ہونا چاہیے، کیونکہ کائنات زندہ ہے اور  تسبیح بیان کرتی ہے،  ان کی تسبیح گہری بھی ہو سکتی ہے، کم بھی ہو سکتی ہے لیکن ہم نہیں سمجھتے، اگر سن بھی  لیں تو نہیں سمجھ پائیں گے۔  امام اکبر نے مزید کہا کہ:  اسم قدوس میں سے انسان کا اس معنی  میں حصہ نہیں ہے  کہ اللہ اپنی ذات میں مقدس ہے،  لیکن انسان اس نام کے ساتھ تشبیہ  کام کرتے ہوئے خود کو شہوتوں سے  اور اپنے مال کو شبہات سے  پاک کرے،  لوگوں کو تکلیف اور نقصان نہ پہنچائے،  اپنے نفس اور قلب و عقل کو ایسے افکار سے پاک کرے جو اسے دین اور آخرت میں نقصان پہنچا سکتے ہیں،  وہ اسم قدوس کے ساتھ مشابہت قائم کرتے ہوئے اپنے اعضاء اور ظاہری و باطنی حواس کو مستقل  پاک کرتا رہے،  انہوں نے صراحت کی ہے کہ اگر ہم اسمائے حسنیٰ کے معانی اور صفات  کی پیروی کریں تو ہماری زندگی مکمل طور پر بدل سکتی ہے کیونکہ ان ناموں میں کی  اخلاقی خزانے چھپے ہیں، جو ان راستوں پر چلتا ہے  وہ دنیا اور آخرت میں سعادت  پا لیتا ہے۔  شیخ الازہر نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ: تقدیس کا اطلاق جیسے اللہ پر ہوتا ہے ویسے ہی انبیاء پر بھی ہوتا ہے،  انبیاء پر کچھ کام واجب ہیں اور کچھ کام ان کے لیے کرنا  محال ہے،  وہ ہ ان نقائص سے پاک  ہیں جو غیر معصوم انسانوں  سے صادر ہوتے ہیں، ہم جیسے مخلوقات کی صفات سے اللہ کی تقدیس بیان کرتے ہیں اسی طرح انبیاء کی بھی تقدیس کرتے ہیں،  ہماری  ورثے میں یہ موجود ہے اور بہت سارے علماء اس سے یہی مراد لیتے ہیں، ہمیں لفظوں کی دلالتیں  سمجھنی چاہیئں،  کیونکہ ہمارے متشدد بھائیوں کے ہاں احترام اور تعظیم و عبادت میں اختلاط  ہوجاتا ہے،  اہل بیت کا احترام کرنے کا مطلب عبادت نہیں ہوتا اور نہ  ہی یہ  شرک میں داخل ہوتا ہے،  عبادت،  تعظیم اور تقدیس کا اپنا اپنا معنی ہوتا ہے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025