اپنی روزانہ کی گفتگو میں امام اکبر کہتے ہیں: دلوں کی خطائیں جسمانی غلطیوں سے زیادہ خطرناک ہے۔
امام اکبرکہتے ہیں: حادث وہ ہوتا ہے جو عدم کے بعد وجود میں آتا ہے، جبکہ قدیم کی میں کوئی ابتدا ہوتی ہے اور نہ ہی اسے عدم لاحق ہوتا ہے، اور وہ اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات ہے، اور حوادث اللہ کے سوا مخلوقات ہیں، ان کا نام ہوا بس اس لیے ہے کہ وہ عدم کے بعد وجود میں آئے ہیں، جبکہ اللہ تعالی قدیم اور ازلی ہے اس کی ابتدا نہیں ہے اور نہ ہی اس کا وجود عدم کے بعد آیا ہے۔
امام اکبر نے آپ نے پروگرام" امام طیب" کی نویں نشست میں واضح کیا کہ السلام اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے یعنی یہ بھی ایک تنزیہ اور تطہیر ہے، وہ انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنے دل، زبان اور باقی اعضاء کو اللہ کے منع کردہ گناہوں اور خطاؤں سے صاف کر کے اس نام سے مزین ہو سکتا ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ زبان کی حفاظت ان سب میں سے زیادہ اہم ہے، حدیث شریف میں آیا ہے کہ: کوئی آدمی ایک لفظ بولتا ہے، وہ اسے اہمیت نہیں دیتا مگر اس کی وجہ سے ستر سال جہنم میں پھینک دیا جاتا ہے، امام اکبر نے دوسرے لوگوں کا ایسا مذاق اڑانے سے خبردار کیا ہے، جس کی وجہ سے انہیں سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ اس مذاق کو سنتے ہیں، انہوں نے اس بات کی دعوت دی ہے کہ انسان اپنی زبان کو جھوٹ، غیبت، چغلی، طنز اور مذاق اڑانے جیسی ان آفتوں سے محفوظ رکھے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو کینہ، نفرت اور بغض سے محفوظ رکھے، اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ نے قیامت کے دن بندے کی نجات کو قلب سلیم کے ساتھ جوڑ دیا ہے، جیسا کہ آیت کریمہ میں آیا ہے: مگر وہ جو قلب سلیم لے کر آیا ہو، یعنی جس کا دل گناہوں سے پاک صاف ہو۔ امام اکبر نے تاکید کی ہے کہ اسلام دل کی سلامتی کا اہتمام کرتا ہے، برائیوں سے بچانے کو اہمیت دیتا ہے اور اچھے اخلاق پر ابھارتا ہے، یہ بات ذہن میں رہے کہ دلوں کی خطائیں جسمانی غلطیوں سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں، کیونکہ اعضاء کے گناہ عام طور پر اس شخص کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور اس کے اثرات دوسروں کی طرف نہیں جاتے، جبکہ کینہ اور حسد دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے، چنانچہ دل کی بیماریاں متعدی ہیں اور ان کا دائرہ اعضاء سی زیادہ وسیع ہے اور دوسروں کو تکلیف دیتی ہیں۔ ہم اکبر نے واضح کیا ہے کہ زمانہ حاضر آفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم نے اسلام اور مسلمان کو نماز، زکوۃ، عمرہ اور عقیقہ وغیرہ میں محدود کر دیا ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں، آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ ہے جو تہجد پڑھے، قیام لیل کرے، یا مسجدوں کی طرف جائے، انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ زبان اور قلب کی سلامتی ہی نجات کا راستہ ہے، انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ کچھ لوگ چینلز پر بہتان اور جھوٹ پھیلاتے ہیں، اللہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ ہی جھوٹ ہوتا ہے، امام اکبر انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے انجام کے بارے میں سوچیں۔ امام اکبر نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے کے برائی کا بدلہ اچھائی سے دینا کمزوری یا ذلت نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ فلسفۂ قوت کے ضمن میں کہتے ہیں کہ عظیم انسان وہ ہوتا ہے جو طاقتور ہو، اور کمزور انسان حقیر ہوتا ہے جس سے خلاصی پانا ضروری ہے، بلکہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دینا ایک قوت ہے اور ایسی قوت ہے جسے ہر کوئی برداشت نہیں کر سکتا، بلکہ وہ لوگ برداشت کر سکتے ہیں جن کی تربیت اللہ تعالی نے کی ہے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام اور ان کے رستوں پر چلنے والے لوگ ہوتے ہیں، اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ کا عمل بہترین شہادت ہے کہ جب انہیں تکلیف دی جاتی تھی اور ان پر زیادتی کی جاتی تھی تو وہ پرامن رہتے اور اس کا جواب نہیں دیتے تھے، لیکن اللہ کی حدود کو پامال کیا جاتا تو شیر کی طرح اس پر رد عمل دیتے، انہوں نے وضاحت کی ہے کہ کمزوری کو ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جا سکتا، اللہ کی پناہ! رسول اللہ ﷺایسے نہیں تھے کہ ایک موقع پر طاقتور اور دوسرے موقع پر کمزور تھے۔
امام اکبر نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ: اسلام حسن اخلاق کا کا اہتمام کرتا ہے، غوروفکر کرنے والا اللہ کی آیات میں اسے محسوس کرتا ہے، جیسی اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "سارى اچھائى مشرق ومغرب كى طرف كرنے ميں ہى نہيں بلكہ حقيقتا اچھا وه شخص ہے جو الله تعالى پر، قيامت كے دن پر" ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکی جو اسلام اور ایمان کی چوٹی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف کرلیں لیکن نیکی اللہ پر ایمان لانا غیرہ و غیرہ ہے، پھر عملی اور اخلاقی پہلو کی طرف منتقل ہوتے ہوئے کہا: عزیزو اقارب اور یتیموں کو محبت کی بنیاد پر مال دینا، یہ کمزور کی مدد اور اخلاق کا میدان ہے، پھر قرآن عمل کے پہلو کی طرف منتقل ہوتا ہے، اور کہا: نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، پھر دوبارہ اخلاق کی طرف آتا ہے، کہا: وعدہ کرنے کے بعد اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے ہیں، پھر کہا: سختی اور تکلیف میں صبر کرنے والے ہیں، اور آخر میں کہا: یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ نیکی کا تعلق عقیدہ، نماز و روزہ جیسے عمل اور اخلاق کے ساتھ ہے۔