" امام طیب" پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الازہر کہتے ہیں: تکبر اللہ کی ذات کے لائق ایک اچھا نام ہے، اور جب اس کے ساتھ کسی بندے کا وصف بیان کیا جائے تو یہ گناہ اور برا فعل ہو جاتا ہے۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہرنے کہا: اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک نام المتکبر ہے اور یہ سورہ حشر میں وارد ہونے والے ناموں میں سے نواں نام ہے، یہ کبر سے ماخوذ ہے یعنی اس کا معنی عظمت ہے، بندہ جس کا مستحق نہیں ہوتا اور بندے کو اگر کبر کے ساتھ موصوف کیا جائے تو یہ غلط صفت ہوگی، انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہ: تکبراللہ کی صفت ہے، اور یہاں دو ذاتوں کے مابین فرق ہے: اللہ کی ذات تکبر کے لائق ہے اور یہ اس کا حق ہے کہ وہ متکبر ہو، اس صفت کا اس کی ذات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ اللہ کی صفات میں سے ہے جبکہ دوسری وہ ذات جو تکبر سے متصف ہونے کے لائق بالکل نہیں ہے۔
امام اکبر نے اپنے پروگرام " امام طیب" کی تیرہویں نشست میں واضح کیا ہے کہ صفت تکبر اللہ کے لیے صفت واجبہ ہے، کیونکہ اللہ کی ذات تقدیس میں اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور انتہا کمال ہوتا ہے، وہ ذات کمال مطلق رکھتی ہے، ہر نقص سے پاک ہے، وہ نقص سے بلند تر ہے اور کمال کی چوٹیوں پر براجمان ہے، اگر ہم تکبرسے عظمت مراد لیں تو اس ذات کے ساتھ عظمت بدیہی طور پر ثابت ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کی ذات ہر نقص سے پاک ہے اور ہر کمال سے متصف ہے تو اس کے لئےعظمت کا ثابت ہونا ضروری ہے اور تکبر عظمت کا ایک جزء ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ: اللہ کی ذات ہر نقص سے پاک اور مقدس ہے، اور وہ جلال و جمال میں کمال کو پہنچا ہوا ہے، ایسا دائمی وجود جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا، وہ مکمل قدرت رکھتا ہے، زبردست ارادے کا مالک ہے، اس کا علم وسیع ہے، اس کے آگےازلی و ابدی معلومات منکشف ہیں، چنانچہ ایسی ذات جوان صفات سے متصف ہواس کا عظیم ہونا ضروری ہے، اور اس بات کا شعورہونا بھی ضروری ہے کہ عظمت صرف اللہ کے لئے ہے، اور عظمت کا شعور تکبر کے وصف کا تقاضہ کرتا ہے، اگر اس کے ساتھ صفت تکبر متعلق نہ ہو تو ذات کی عظمت میں نقص واقع ہو جاتا ہے، انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی نسبت سے تکبر ایک اچھا نام اور صفت جلال ہے اور اس ذات کے شایان شان بھی ہے، جبکہ کسی بندے کو اس صفت کے ساتھ متصف کرنا گناہ، نقص اور برائی ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی بے وقوف آدمی کو شاہی تاج پہنا دیا جائے، انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بندے کو تکبر کے ساتھ متصف کرنا اس کی مذمت اور نقص ہے، کیونکہ اس کی ذات اللہ کی اس صفت کی نہ مستحق ہے اور نہ ہی متقاضی ہے۔
انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ: انسان جب اچھی طرح جان لے کہ وہ اس صفت کا مستحق نہیں ہے تو اس کی طرف جاتا بھی نہیں ہے، لیکن مشکل بات انسان کی غفلت ہے کہ وہ اللہ سے غافل ہو جاتا ہے اور اپنی حقیقت سے جاہل بن جاتا ہے، جب وہ جان لے کہ وہ کمزور مخلوق ہے، وہ تو اپنی روح، عقل اور وجود تک کا مالک نہیں ہے، کسی بھی وقت اس سے یہ چیزیں لی جا سکتی ہیں، جب وہ یہ بات جان لے تو کبھی بھی اللہ کے بندوں سے تکبر کے ساتھ پیش نہیں آ سکتا، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے: تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن چھوٹی چیونٹیوں کی طرح کی انسانی شکلوں میں اٹھایا جائے گا۔