شیخ الازہر کہتے ہیں: ہر طرح کا رزق رزاق کے ہاتھ میں ہے اور بندہ کوشش کرنے اور اسباب کو اختیار کرنے کا پابند ہے۔

برنامج الإمام الطيب ٢٠٢٢.jpeg

امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے کہا ہے کہ:  اللہ کے ناموں میں سے ایک نام رزاق ہے جو قرآن کریم اور سنت نبوی میں وارد ہوا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے، نام کبھی فتاح اور کبھی علیم کے ساتھ مل کر آتا ہے،  رزاق کا معنی مخلوقات کو رزق کے ساتھ ساتھ  ہر وہ چیز فراہم کرنا ہے جو ان کی زندگی کی بقا اور آسانی کے لیے ضرورت کا درجہ رکھتی ہے،  اور یہ انسان اور غیر انسان دونوں کو شامل ہے،  قرآن کریم میں آیا ہے: اور زمین پر کوئی چلنے والا نہیں مگر اس کی روزی اللہ پر ہے اور جانتا ہے جہاں وہ ٹھہرتا ہے اور جہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ واضح کتاب میں ہے۔   دابہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جو زمین پر چلتی ہے اور حرکت کرتی ہے، چاہے انسان ہوحیوان ہو یا حشرات ہوں۔
شیخ الازہر نے اپنے رمضان پروگرام " شیخ الازہر کی گفتگو" کی انیسویں نشست میں مزید کہا کہ آیات اس بات پر صراحت کرتی ہیں کہ مخلوقات خود کو رزق نہیں دیتیں بلکہ ان کو اللہ رزق دیتا ہے،  اگر خدا کا ارادہ نہ ہو تو ہم اپنے آپ کو رزق نہیں دے سکتے، نبی اکرم ﷺسے روایت ہے کہ جب انہوں نے مشرکین کی اذیتوں کے بعد اہل ایمان سے  فرمایا: مدینہ کی طرف چلے جاؤ، ہجرت کر جاؤ اور ظلم کے پڑوس میں نہ رہو،  تو کہنے لگے: وہاں ہمارا نہ کوئی گھر ہے نہ زمین ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی کھلائے گا پلائے گا،  تو یہ آیت نازل ہوئی: { اور بہت سے جانور ہيں جو اپنى روزى اٹھائے نہيں پھرتے، ان سب كو اور تمہيں بھى الله تعالى ہى روزى ديتا ہے}،  یہ قرآن کریم کا درس ہے کہ اللہ ہی رازق ہے جو ہر شے کو لگاتار بغیر کسی انقطاع اور انتظار کے رزق عطا کرتا ہے۔
 امام اکبر نے واضح کیا ہے کہ: رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے اور بندہ کوشش کرنے اور اسباب کو اختیار کرنے کا پابند ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: " وه ذات جس نے تمہارے ليے زمين كو پست ومطيعكرديا تاكہ تم اس كى راہوں ميں چلتے پھرتے رہو اور الله كى روزياں كھاؤ (پيو) اسى كى طرف (تمہيں) جى كر اٹھ كھڑا ہونا"، انسان کا کام اسباب کو اختیار کرنا ہے اور پھر اللہ رزاق کی طرف سے رزق عطا ہوتا ہے اور یہ بندے کے فعل کا نتیجہ نہیں ہے،  رسول اکرم ﷺنے پرندے کی مثال بیان فرمائی ہے: اگر تم اللہ پر توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تواللہ تمہیں پرندوں کی طرح رزق عطا کرے گا جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے واپس آتے ہیں،  پرندہ صبح جاگتا ہے اور اس کا پیٹ خالی ہوتا ہے، وہ ایک ہوائی سفر کی طرح اپنے سفر پر نکلتا ہے، مواقع تلاش کرتا ہے، اسے پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا رزق کہاں ہے، اچانک ایسی جگہ پر اترتا ہے جہاں اللہ نے اس کے لئے رزق رکھا ہوتا ہے، اسے کھا کر بھرے پیٹ اپنے گھونسلے کی طرف واپس آ جاتا ہے، اور اس میں ہمارے لئے مثال اور عبرت ہے۔
امام اکبر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان پر واجب ہے کہ وہ شریعت کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسباب اختیار کرے اور اس بات کا یقین رکھے کہ یہ اسباب کوئی نتیجہ یا رزق پیدا نہیں کرتے ہیں اور انہیں علت و معلول یا  سبب و مسبب کا رشتہ بنا دے، کیونکہ یہ اس کے عقیدے  میں خلل پیدا کر دے گا،  اس طرح وہ اس بات پر یقین  رکھے گا کہ اللہ  کے سوا رزق دینے والا کوئی اور خالق ہے، قرآن کی آیات اس پر متنبہ کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے مسلمان علماء، متکلمین، اہل عقل اور خاص طور پر اشاعرہ  نے علت سبب اور معلول مسبب کے درمیان تعلق کو ختم کرنے کی طرف زور دیا،  یہاں تک کہ وہ اس کے لیے آگ اورجلنے کے عمل  کی مثال دیتے ہیں،   آگ جب کسی ایسے جسم کے ساتھ ملتی ہے جو جلنے کے قابل ہے جیسے روئی تو روئی کے لئے لازم ہے کہ وہ جلے،  علما یہاں لفظ ضرور  جلنے کا تجزیہ کرتے ہیں، مومن یہ نہیں کہتا کہ آگ جلانے والی ہے بلکہ وہ تو روئی کی طرح ایک جامد چیز ہے اور جلانا اس کی خاصیت ہے اور ان کے درمیان تعلق محض ایک دوسرے کے قریب آجانا ہے، حقیقت میں اللہ سبحانہ و تعالی ہی جلنے کے عمل کو پیدا کرتا ہے۔
امام اکبر نےتاکید کے لیے سیدنا ابراہیم کے  واقعےسے استشہاد کیا کہ  یہ ضروری نہیں ہے کہ جب بھی جلنے کا سبب پایا جائے تو وہ چیز جل اٹھے، تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اللہ کا اپنی کتاب میں ارشاد ہے: ہم نے کہا اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا، اگر آگ اپنی ذات میں جلانے کا فاعل ہوتی تو اسے چھونے والی ہر چیز جل جاتی،  مگر اللہ کا معجزہ ہے کہ اس نے آگ کی خاصیت کو روک دیا اور اسے کہا کہ مت جلا، یہ صرف اللہ ہی کی ذات ہے جو ان خاصیتوں کو اپنے ارادے سے روک سکتی ہے،  یہاں میں ان لوگوں سے سوال کرتا ہوں جو اشاعرہ کے نظریے پر تنقید کرتے ہیں:  وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے معجزے کی یا لاٹھی کے زندہ ہونے، عیسی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنے اور موسی علیہ السلام کے لئے سمندر کے شق ہو جانے جیسے دوسرے معجزات کی کیا تفسیر کرتے ہیں، کیونکہ معجزہ چیزوں کی ان خاصیتوں اور طبیعتوں کو معطل کر دیتا ہے۔
امام اکبر نے واضح کیا ہے کہ:  فلسفہ توکل کے ضمن میں انسان حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسباب کو اختیار کرے اور اس بات کا یقین رکھے کہ ان اسباب کا نتیجہ پیدا کرنے میں کوئی ہاتھ نہیں ہے، وہ اسباب اختیارکرتا ہے اور رزق اللہ دیتا ہے،  انسان کئی دفعہ اسباب اختیار کرتا ہے لیکن اسے رزق نہیں ملتا کیونکہ صرف اللہ ہی کی ذات رزاق ہے،  اور یہ ان لوگوں  کے لیے جواب ہے جو مسلمانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ توکل کی آڑ میں اسباب کو اختیار نہیں کرتے،  امام اکبر نےوضاحت کی ہے کہ:  اللہ پر توکل کرنے اور اسباب چھوڑ دینے میں فرق  ہے،  توکل کی دو بنیادیں ہیں،  ایک بنیاد حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسباب کو اختیار کرنا ہے اور دوسری بنیاد یہ  یقین رکھنا ہے کہ ان اسباب سے ضروری نہیں ہے کہ کوئی نتیجہ پیدا ہو،  نتیجہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
 شیخ الازہر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ  اسباب کو چھوڑ دینا اور کسی عمل کے بغیر رزق کے انتظار میں رہنا اس  توکل اور نظام کے خلاف ہے، جسے قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ: زمین میں چلو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ،  چلنے سے مراد کوشش کرنا ہے اور پھر رزق کھانے کو ملتا ہے،  اللہ نے سیدہ مریم سے فرمایا:  کھجور کے تنے کو ہلاؤ، یہ تم پر تازہ کھجوریں پھینکے گا،  کھجور کے تنے کو ہلکا سا بھی ہلانا اسباب کو اختیار کرنا ہے۔
پروگرام "شیخ الازہر کی گفتگو" روزانہ  اولی  مصری چینل، حیات چینل،  ابوظہبی چینل،  نیل ریڈیو، کئی مصری اور عرب چینلز پر نشر ہوتا ہے جس میں امام اکبر  پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر اسمائے حسنی کی  شرح، ان صفات کی اہمیت،  انہیں اپنانے کا طریقہ اور انسان کو لاحق مادی و نفسیاتی دباؤ کم کرنے میں ان کے اثرات پر گفتگو کرتے ہیں،  اور انہیں ایک عبادت کے طور پر بیان کرتے ہیں جس کا اللہ نے اپنی کتاب کریم میں واضح حکم دیا ہے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025