شیخ الازہر عظمت اسلام کو یقینی بنانے کیلئے ایثار کو راسخ کرنے میں حدیث بلال کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔

برنامج الإمام الطيب ٢٠٢٢.jpeg

  امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہرنے کہا:  رزق اللہ کی طرف سے آتا ہے،  اور اس کا تعلق صرف مادی رزق سے نہیں ہوتا بلکہ رزق مادی بھی ہوتا ہے اور روحانی بھی ہوتا ہے، مادی رزق جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ مال اور کھانے پینے سمیت  صحت اور عزت و منصب  وغیرہ جیسے معلوم اور محسوس ہوتا ہے۔  جبکہ معنوی اور روحانی رزق جو سب سے زیادہ اہم ہے اور وہ ایمان، ہدایت اور اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے،  جب اللہ تعالی کسی انسان کو ایسا دل عطا فرماتے ہیں جو اسے ہر لمحہ اللہ کی یاد دلاتا ہے تو یہ بہت بڑی نعمت ہے، جس سے وہ باشعور اور با اخلاق ہوجاتا ہے،اور اللہ تعالی اس کے رزق میں وسعت اور برکت عطا فرماتا ہے۔
 امام اکبر نے اپنے پروگرام " شیخ الازہر کی گفتگو" کی بیسویں نشست میں بیان کیا کہ: انسان کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ وہ اسباب اختیار کرتا ہے اور پھر اللہ رزاق کی طرف سے رزق کا انتظار کرتا ہے، لیکن رزق اس کے عمل کے نتیجے میں نہیں آتا۔ کیونکہ رزق کسی عمل کا حتمی نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ کی طرف سے آتا ہے،  بصورت دیگر بندہ اس ذات کی طرف سے رزق کا منتظر کیسے ہوسکتا ہے،  جو رزق کا سرے سے مالک ہی نہ ہو،  انسان اسباب کو اختیار کرنے کا پابند ہے، جبکہ رزق رزاق کی طرف سے آتا ہے،  اللہ تعالی کبھی اسے رزق دے دیتا ہے اور کبھی روک لیتا ہے اور کبھی کم دیتا ہے اور کبھی زیادہ دیتا ہے، یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
شیخ الازہر نے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ انسان اپنی بھائی کا مدد گار ہو،  اور جو اللہ نے اسے دیا ہے اس میں سے لوگوں کو بھی دے،  سیدنا بلال سے روایت ہے کہ: رسول ﷺنے فرمایا: اے بلال! حالات فقیری میں اللہ سے جا ملو،  لیکن مالدار ہو کر  موت کو گلے سے مت لگانا،  میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول یہ کیسے ہو گا؟ فرمایا: جو تمہیں  رزق ملا ہے اسے مت چھپاؤ،  اور تم سے مانگا جائے تو منع مت کرو، میں نے عرض کیا: یہ کیسے ممکن ہے؟ فرمایا: یا ایسے کرو جہنم کی آگ قدر ہو گی)،  اس حدیث مبارک سے آخری دین کی عظمت واضح ہوتی ہے اور یہ دین انسان کی زندگی کو اس کائنات میں آخری لمحے تک منظم کرتا ہے، وہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ  دوسروں کی مدد کریں اور ان کو اپنے رزق میں سے حصہ دیں، مال ہے  تو مال دیں، علم ہے تو دوسروں کو علم سے نوازیں؛ وغیرہ وغیرہ۔
امام اکبر نے اللہ تعالی کے نام " الفتاح" کی شرح بیان  کرتے ہوئے کہا کہ: الفتاح اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہ قرآن میں الفتاح اور الفاتح  دونوں صورتوں میں وارد ہوا ہے،  اسی طرح افتح  اور مختلف مصادر کی شکل میں بھی وارد ہوا ہے،  یہ ان ناموں میں سے ہے جو فعال، فاعل، فعل اور مصدر وغیرہ مشتقات کی شکل میں قرآن کے اندر وارد ہوا ہے، احادیث نبویہ میں اس کا ذکر ہے اور تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔
  امام اکبر نے واضح کیا ہے الفتاح نام سے سب سے پہلے جو بات ذہن میں سب سے پہلے آتی ہے وہ کسی بند چیز کو کھولنا ہے، چنانچہ اللہ کی ذات کھولنے والی ہے،  (وَعِندَهُۥ مَفَاتِحُ ٱلۡغَیۡبِ لَا یَعۡلَمُهَاۤ إِلَّا هُوَۚ وَیَعۡلَمُ مَا فِی ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِۚ وَمَا تَسۡقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا یَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةࣲ فِی ظُلُمَـٰتِ ٱلۡأَرۡضِ وَلَا رَطۡبࣲ وَلَا یَابِسٍ إِلَّا فِی كِتَـٰبࣲ مُّبِین):{ اور الله تعالى ہى كے پاس ہيں غيب كى كنجياں، (خزانے) ان كو كوئى نہيں جانتا بجز الله كے۔ اور وه تمام چيزوں كو جانتا ہے جو كچھ خشكى ميں ہيں اور جو كچھ درياؤں ميں ہيں اور كوئى پتا نہيں گرتا مگر وه اس كو بھى جانتا ہے اور كوئى دانہ زمين كے تاريك حصوں ميں نہيں پڑتا اور نہ كوئى  ترا اور   نہ كوئى خشك چيز گرتى ہے مگر يہ سب كتاب مبين ميں ہيں}، اور فیصلہ کرنے والے کے معنی میں بھی آتا ہے،{ اگر تم لوگ فيصلہ چاہتے ہو تو وه فيصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا 
}،  یہ ان دو لوگوں کے ساتھ خاص ہے جن کا آپس میں نزاع ہو گیا ہے اور وہ کسی فیصلہ کرنے والی ذات کے محتاج ہیں،  اسی طرح یہ مدد کے معنی میں بھی آتا ہے، { اگر تم  مدد طلب کرو تو تمہارے پاس مدد آ جائے گی}،  یہ تمام معانی اللہ کے نام  الفتاح کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہ مبالغہ کا صیغہ ہے، یعنی: کائنات کے اندر جو چیز بھی بند ہے اللہ تعالی اس کو کھولنے والا ہے۔
شیخ الازہر نے واضح کیا ہے کہ: بندے کو جب اس بات کا علم ہو جائے کہ غیب کی کنجیاں اللہ تن تنہا  کے ہاتھ میں ہیں تو یہ  ایک غیر معقول بات ہے کہ جب اس پر دنیا کے معاملات بند ہو جائیں یا سختی بڑھ جائے تو وہ غیر اللہ کے پاس چلا جائے،  بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ اللہ کے سامنے گڑگڑائے جس کے ہاتھ میں ہر چیز ہے،  یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جو انسان کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ انسانی سطح کی کوشش کرتا رہے اور جو اسے دیا گیا ہے اس میں سے دوسروں کی مدد کرے اور ان کے لیے خیر کا باعث بنے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025