شیخ الازہر کہتے ہیں: اللہ کا علم قدیم اور ازلی ہے جس پر جہل بالکل مقدم نہیں ہوتا

برنامج الإمام الطيب ٢٠٢٢.jpeg

امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے کہا:   اللہ کی صفت علم کا کسی نے بھی انکار نہیں کیا کیونکہ یہ ایک فکری قدراور مسلم بات ہے، صفت علم کے اثبات کے ضمن میں دلیل واضح ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی کائنات اور اس کائنات میں موجود  گہری صناعی اس کے علم کی واضح دلیل ہے، امام اکبر نے مزید کہا کہ اگر ہم اوپر اور نیچے کی دنیا کو دیکھیں، چاہے ستارے ہوں یا  سورج ہو یا اس کے علاوہ آسمان کا نظام ہو،  اسی طرح نیچےکی طرف دیکھیں، پہاڑ ہیں، سمندر ہیں اور انسان کا گہرا موجود ہے تو عقل بدیہی طور پر کہتی ہے کہ ان چیزوں کا بنانے والا بڑا عالم ہے، اور ان چیزوں میں موجودعلوم سے کہیں بڑھ کر وہ علم رکھتا ہے، یہاں استدلال عقلی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ قرآن کریم استدلال پیش کرتے ہوئے کہتا ہے: کیا وہ جانتے نہیں ہیں کہ کس نے پیدا کیا ہے وہ لطیف وخبیر ذات ہے۔
امام اکبر نے بروز ہفتہ اپنے رمضان پروگرام " شیخ الازہر کی گفتگو" کی بائیسویں نشست  میں علم الہی اور مخلوق کے علم میں  فرق بتایا ہے، انہوں نے کہا: اللہ کا نام علیم ان ناموں میں سے ہے جو اللہ  اور رحمان کی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ اس کے حقیقی اور مجازی دونوں اطلاق موجود ہیں،االلہ پر اس کا اطلاق حقیقی ہوتا ہے جبکہ بندے پر اس کا اطلاق مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔

شیخ الازہر نے مزید کہا کہ: اللہ کا علم حقیقی ہے، قدیم اور ازلی ہے، جیسے اللہ کی ذات قدیم ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں، اسی طرح اس کا علم بھی قدیم ہے جس پر جہل مقدم نہیں ہے، ہم اللہ کے علم کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ علم حادث ہے یا نہ ہونے کے بعد وجود میں آیا ہے، کیونکہ اس طرح اس علم کو جہالت لازم ہوجائے گی، جیسے انسان ہے جو حالت جہل میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے علوم مسلسل حادث ہی رہتے ہیں۔
امام اکبر نے مزید کہا کہ: اللہ کےعلم کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں واحد ہے، نہ بدلتا ہے اور نہ ہی متعدد ہوتا ہے،  یعنی بہت ساری معلومات کی وجہ سے تعدد کا شکار نہیں ہوتا،  جبکہ ان کا علم معلومات کی کثرت سے کثیر ہو جاتا ہے، چنانچہ اللہ کا علم واحد ہے اور تمام مخلوقات کو ایک ہی دفعہ محیط ہے، وہ معلوم کے بدلنے سے بدلتا نہیں ہے جبکہ انسانی علم معلوم کے بدلنے سے بدل جاتا ہے۔
امام اکبر نے مزید کہا کہ: بندے کے علم کو ہم اکتسابی علم کہتے ہیں جو ذرائع سے حاصل ہوتا ہے،  اسی لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ کے علم کے کوئی ذرائع ہیں، ہم انسانی علم کے ذرائع مانتے ہیں، ہم نے کہا کہ مسلمانوں کی علم و معرفت کے ذرائع تین ہیں اور وہ حس، عقل اور وحی ہے، بہت سارے نوجوانوں کو دھوکا دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انسانی معرفت کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ حواس ہیں۔
 امام اکبر نے ذکر کیا کہ:  اللہ کے نام علیم سے انسان کا حصہ یہ ہے کہ جب وہ جان لے کہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے تو وہ اپنے معاملات اللہ کے سپرد کر دے، جب انسان یہ جان لیتا ہے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اسی کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے، نہ کہ ان دروازوں پر کھڑا ہوتا ہے جو علم نہیں رکھتے،  اور دوسری بات یہ ہے کہ انسان علم کے مرتبے کو پہچان کر علم حاصل کرے اور سیکھنے کی کوشش کرتا رہے۔
امام اکبر نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا: علماء نے اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ علوم کی فضیلت ان کے موضوعات کی فضیلت کی وجہ سے ہے، یعنی موضوع کی عظمت سے علوم کی فضیلت ہوتی ہے، تو الہیات کا علم جس کا موضوع اشرف الموجودات  ہے، تو اس کا علم بھی تمام علوم سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے، اور انسان کو چاہیے کہ وہ تھوڑا یا زیادہ اس علم کو حاصل کرے اور اس علم کو اصول دین کا نام دیا جاتا ہے،  یہاں تک کہ اس علم کو اصول فقہ پر بھی مقدم کیا جاتا ہے،  کیونکہ اصول فقہ کا علم فروعی احکام سے متعلق ہوتا ہے جیسے وضو، نماز اور زکوۃ وغیرہ کے مسائل ہوتے ہیں، جبکہ اصول دین کا تعلق ان فروعی مسائل کے اصول سے ہے نہ کہ ان فروعی مسائل سے متعلق ہے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025