شیخ الازہر کہتے ہیں: اللہ نے معراج کے موقع پر حضرت محمد ﷺسے بغیر کسی واسطے کے براہ راست گفتگو فرمائی ہے۔

برنامج الإمام الطيب ٢٠٢٢.jpeg

امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے کہا:" الخافض الرافع"  اللہ کے دو نام ہیں اور یہ اسم ذات نہیں ہیں، مگر ان کا تعلق اسمائے افعال سے ہے یعنی ان کا اثر بندوں کے افعال سے متعلق ہے،  اور یہ قرآن کریم میں فعل کی صیغہ کے ساتھ وارد ہوئے ہیں خافض یا رافع کے لفظ کے ساتھ نہیں  آئے ہیں،  اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ورفعناه مكانًا عليًّا، "ہم نے اسے بلند مقام پر  اٹھاليا"   اور  فرمایا: يرفع الله الذين آمنوا منكم والذين اوتوا العلم درجات۔ " اور جب كہا جائے كہ اٹھ كھڑے ہو جاؤ تو تم اٹھ كھڑے ہو جاؤ الله تعالى تم ميں سے ان لوگوں كے جو ايمان لائے ہيں اور جو علم ديئے گئے ہيں درجے بلند كردے گا"
امام اکبر نے اپنے رمضان پروگرام " شیخ الازہر کی گفتگو" کی چوبیسویں نشست میں واضح کیا کہ:  ان دونوں ناموں کا اثر حسی اور عقلی دونوں سطح پر ظاہرہوتا ہے،  جیسے مکان اور مکانۃ یعنی مرتبہ کہا جاتا ہے،  اسی طرح  اٹھنا اٹھانا اور اترنا اتارنا محسوس اور معقول دونوں سطح پر ہوتا ہے،  امام اکبر نے اس کیلئے مثالیں پیش کی ہے،  جیسے اللہ کا آسمان اور عرش پر بلند ہونا اور زمین پر اترنا محسوسات کے ضمن میں ہے،  اسی طرح انبیاء علیہم السلام جیسے سیدنا عیسی علیہ السلام کو اٹھانا  "﴿بل رفعه الله إليه﴾" " بلكہ  الله تعالى  نے انہيں  اپنى  طرف  اٹھا  ليا"اور سیدنا ادریس علیہ السلام کو اٹھانا  محسوس طریقے سے ہے۔ " ورفعناه مكانًا عليًّا، "ہم نے اسے بلند مقام پر  اٹھاليا"   "
امام اکبر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ کے سوا جو بھی ہے وہ مخلوق ہے، زمین و آسمان مخلوق ہیں اور اسی طرح انبیاء بھی مخلوق ہیں،  اللہ نے بعض کو مکان کے اعتبار سے اٹھایا ہے اور بعض کو مرتبے کے اعتبار سے اٹھا رکھا ہے،  اور اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم مبارک کے ساتھ معراج کے موقع پر اس سطح تک اٹھایا جہاں قلم کی سرسرا ہٹ سنائی دے رہی تھی، اور انہیں سدرۃ المنتہیٰ تک اٹھایا،  یہ وہ مرتبہ ہے جس تک کوئی دوسری مخلوق نہیں پہنچی ہے، اور جہاں اللہ نے بغیر کسی واسطے کے ان سے براہ راست گفتگو فرمائی ہے، اور  نہ ہی وہاں کوئی فرشتہ تھا جو اللہ کی گفتگو سن کر آپ ﷺکی طرف نقل کر رہا ہو،  جیسا کہ قرآن کریم سیدنا جبریل علیہ السلام کے ذریعے نقل ہوا ہے۔
امام اکبر نے واقعہ معراج میں شک کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: انہیں یہ بتانا چاہیے کے سدرۃالمنتہیٰ زمین میں کہاں ہے، اسی طرح زمین میں جنت الماویٰ کہاں ہے؟! انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایک دو صدیوں سے یہ کہا جا رہا ہے کے آپ ﷺکیسے معراج پر گئے اور کیسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے؟ اور آج کا انسان موبائل کے ذریعے زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے پر رابطہ کر سکتا ہے اور مستقبل میں یہ بھی سنا جا سکتا ہے کہ انسان نے مریخ کی کسی ہستی سے رابطہ قائم کر لیا ہے،  یہ انسان کے محدود علم اور صلاحیتوں کی سطح ہے، تو یہ لوگ قادر سبحانہ وتعالی  سے متعلق اس بات کو بڑا کیوں سمجھتے ہیں، الا یہ کہ الحاد کی کوئی رتی انہیں ان معاملات پر ابھار رہی ہو۔
امام اکبر نے ان لوگوں پرحیرت کا اظہار کیا ہے جو دوسری آسمانی کتابوں کی بجائے قرآن کریم میں تشکیک کرتے ہیں،  انہوں نے کہا:  انجیل اور تورات وغیرہ میں تو گفتگو کرنا ممنوع ہے،  چنانچہ یہ افعال انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ اس کے اسباب اور نتائج معروف ہیں،  امام اکبر نے مطالبہ کیا ہے کہ لوگوں کے عقائد اور ان کی مقدس کتابوں کا کچھ تو احترام کیا جائے۔
امام اکبر نے نوجوانوں سے درخواست کی ہے وہ ایسے پروگراموں کی طرف توجہ نہ دیں جو بغیر علم کے شریعت اور لوگوں کے ‏ اعتقاد پر گفتگوکرتے ہیں، اور دوسرے چینلز کی طرف منتقل کرتے ہیں، وہ یہ کہتے ہوئے بات شروع کرتے ہیں کے میں اس بات کے مخالف ہوں کہ لوگ ایسی باتیں سنیں اور پھر پروگرام کے آخر میں چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں تو مناسب یہی ہے کہ شروع ہی سے ایسے پروگرام کا حصہ نہ بنا جائے۔
امام اکبر نے مزید کہا کہ:  کچھ مغربی ادارے مشرق اور عرب و مسلم امہ کو کمزور کرنے کے لئے  فنڈنگ کرتے ہیں، میں اس کی تعمیم نہیں کرتا،  مگر وہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم ایک قوت ہے،  چنانچہ کچھ سیاسی ادارے بھی اس پروگرام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تاکہ مشرق میں مسلمانوں کے ذرائع قوت پر کاری ضرب لگائی جائے، جو اس سے متعلق زیادہ جاننا چاہتا ہے وہ انہی کی کتابوں کے تراجم پڑھ لے،  چنانچہ مقصد یہی ہے کے لوگوں کو الجھا کر انہیں ہر اس چیزسے دور کر دیا جائے جو ان کے لیے نفع مند ہے۔
شیخ الازہر نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا: ہمارے بہت سارے علماء خافض اور رافع کو اس معنی تک محدود کر دیتے ہیں کہ وہ ظالموں، سرکشوں اور متکبرین کو جھکانے والا ہے اور اولیاء و انبیاء کو بلند کرتا ہے،  لیکن خافض یہاں ظالموں اور متکبرین کو جھکانے کی طرف متوجہ ہے،  جبکہ اٹھانے کا مطلب حق اور اہل حق کو اٹھانا ہے،  باطل اور اہل باطل کو رسوا کرنا ہے، اہل ایمان، اولیاء اور علماء کا ساتھ دینا ہے اور جو اللہ سے دشمنی کرے اس کے ساتھ دشمنی کرنی ہے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025