شیخ الازہر کہتے ہیں: دنیا سے بے رغبتی بندے کے لئے عزت کی انتہا ہے۔

برنامج الإمام الطيب ٢٠٢٢.jpeg

امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے کہا: اللہ کے دو  نام " معز اور مذل" "خافض اور رافع" کی طرح اسمائے افعال ہیں،  اسم ذات نہیں ہیں،  قرآن کریم میں فعل کے صیغہ کے ساتھ وارد ہوئے ہیں: وتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ "اور تو جسے چاہے  عزت دے  اور جسے  چاهے ذلت دے"،  اور حدیث مبارکہ میں بھی اسی صیغۃ کے ساتھ وارد ہوئے ہیں اور ان کا مصدر اعزاز اوراذلال ہے،  اور ان کا مطلب یہ ہے اللہ اپنی مخلوق میں سے بعض کو عزت دیتا ہےاور بعض کو ذلت سے دوچار کرتا ہے،  ملک دے کر عزت دیتا ہے اور ملک چھین کر ذلت دیتا ہے، جیسے اللہ کا ارشاد ہے:  تو جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے،  اور اس کا معنی صرف یہی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات عزت مال سے ہوتی ہے اور ذلت فقر کے ساتھ بھی ملتی ہے، اسی طرح منصب کے ذریعے بھی عزت ملتی ہے اور کاہلی کی وجہ سے ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،  انہوں نے مزید کہا کہ مفسرین کی اکثریت  دنیا سے بے رغبتی کو اعزاز شمار کرتے ہیں اور یہ بندے کے لئے انتہائی فخر اور عزت کا مقام ہے،  بایں طور کہ زہد یا بے رغبتی یہاں مرتبے میں مال سے بے رغبتی  سے بڑھ کر ہے۔
  امام اکبر نے اپنے رمضان پروگرام" شیخ الازہر کی گفتگو" کی پچیسویں نشست میں واضح کیا کہ: انسان جب بھی زہد اختیار کرتا ہے عزت پا جاتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء اپنے شدید زہد کے ساتھ  معروف تھے،  امام شافعی زہد  سے متعلق اپنے اشعار میں کہتے ہیں: میں اگر زندہ رہوں تو بغیر خوراک کے نہ ہوں،  اور اگر مر جاؤں تو بغیرقبرکے نہ ہوں،  میری ہمت بادشاہوں کی سی ہے، میرا نفس آزاد ہے جو ذلت کو کفر سمجھتا ہے،  انہوں نے ایک قول کے اندر زہد اور اس میں موجود عزت کو بیان کردیا،  عزت مخلوق اور دنیاوی زندگی کی زینت سے استغناء میں ہے،  انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ بے رغبتی رزق کے پیچھے کوشش کے ساتھ تعارض نہیں رکھتی، ہم نے  جو کرنا ہے وہ یہ کہ ہم کوشش کریں اور پھر اللہ کی طرف سے رزق اور رضا کا انتظار کریں، سبب کو اختیار کرنے اور پھر نتیجہ کے  انتظار کے مابین کوئی حتمی تعلق نہیں ہے۔
شیخ الازہر نے واضح کیا کہ: سبب اور نتیجہ کے درمیان تعلق ظاہری ہے،  یہی وجہ ہے کہ جب سبب اور  نتیجہ آپس میں مل جاتے ہیں تو عقل دھوکہ کھا جاتی ہے کی جب سبب پایا جائے تو نتیجہ کا ہونا ضروری ہے،  مگر حقیقت میں ان کے مابین کوئی عقلی تعلق نہیں ہے، اگر ہم ہو حواس پر اعتماد کریں تو ان کے مابین تعلق صرف ایک دوسرے کے قریب آ جانا ہے،  اسی لیے جو اس کے برعکس ایمان رکھتے ہیں وہ معجزات پر یقین نہیں کر سکتے، جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آگ نے انہیں نہیں جلایا، مثال کے طور پر ملحدین کا ذریعہ علم حواس ہیں، اسی لیے وہ ان معجزات کا انکار کرتے ہیں،  کیونکہ وہ ہر اس چیز کا انکار کرتے ہیں جو حواس کی گرفت میں نہیں آتی، انہوں نے مزید کہا: یہ اللہ ہی ہے جو جلانے والی  آگ میں جانے کے باوجود  جلنے نہ دے،  وہی ذات ہے جو اس کی تاثیر کو ختم کر سکتی ہے وہ اس کائنات کا فاعل حقیقی ہے۔
شیخ الازہر نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے  کہا: قرآن کریم نے "معز" کے معنی کو ذلت کے مظاہر کے ساتھ واضح کیا ہے،  قرآن پاک رسول اللہ ﷺکومخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:  "﴿لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ﴾، "آپ ہر گز اپنى نظريں اس چيز كى طرف نہ دوڑائيں،  جس سے ہم نے ان ميں سے كئى قسم كے لوگوں كو بہره مند كر ركھا ہے، نہ ان پر آپ افسوس كريں اور مومنوں كے لے اپنے بازو جھكائے رہيں۔ 
۔ یہ آیت اس بات کو شامل ہے کہ لوگوں  کے ہاتھوں میں موجود چیزوں سے زہد اور استغنا برتا جائے،  اسی میں عزت ہے،  انہوں نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ زہد کا مطلب کام چھوڑ دینا نہیں ہے بلکہ زہد کا مطلب یہ ہے کہ آپ چیزوں کے مالک ہوں نہ کہ چیزیں آپ کی مالک ہوں،  اور یہ کہ آپ عزت صرف اللہ سبحانہ و تعالی سے طلب کریں،  اللہ ذلت کے شکار بندے  کی بجائے صاحب عزت بندے کو پسند کرتا ہے،  اللہ کے اس نام "معز" میں سے  مومن کا حصہ یہ ہے کہ وہ اطاعت کے ذریعے عزت کا طالب ہو اور معصیت کی ذلت سے دور رہے،  سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ بندہ ان لوگوں میں سے شمار ہو جن پر اللہ کا غضب ہوتا ہے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025