شیخ الازہر سے اسلام میں خواتین اور خاندانی مسائل پر بات کرنے کے لیے ایک ازبک وفد نے ملاقات کی۔

شيخ الأزهر يستقبل وفدًا أوزباكستانيًّا لمناقشة قضايا المرأة والأسرة في الإسلام .jpeg

امام اکبرپروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف نے بروز بدھ مشیخۃ الازہر میں، خواتین اور خاندانی مسائل پر ازبک کابینہ کے وزراء کی سینیٹ کمیٹی کی چیئرمین ڈاکٹر قادر ملیکہ اکبر کی زیر صدارت مذہبی امور کی کمیٹی، اور مسلمانوں کی انتظامیہ اور ازبکستان کی اسلامی اکیڈمی کے ایک وفد سے ملاقات کی۔ تاکہ اسلام میں خواتین اور خاندانی مسائل پر گفتگو کی جائے۔
امام اکبر نے کہا کہ "اسلام میں خواتین" کا موضوع وقتاً فوقتاً عالمی منظر نامے پر سامنے آتا ہے۔ تاکہ اسلام پر عورتوں کا دشمن مذہب ہونے کا جھوٹا الزام اور بہتان لگایا جائے۔ آپ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم، سنت نبویؐ اور عورتوں کے ساتھ آپ علیہ السلام  کا برتاؤ، یہ سب کچھ مرد اور عورت کے درمیان مساوات قائم کرنے میں واضح ہے۔ اور یہ مساوات انضمام اور تخصیص کی مساوات ہے اور اس کی تقسیم اس طرح ہے جو ہر فریق کی فطرت اور طبیعت کے مطابق  ہے۔ اور قرآن و سنت نے اس مساوات کو لاگو کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔ اور اس کی تصدیق مکہ اور مدینہ کے عہد میں عورتوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رویے سے بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے میاں بیوی کو مخصوص اور واضح کام تفویض کیے، نظامِ ازدواج کو ایک انتہائی اہم ادارے کے طور پر قائم کیا، اور اسے کامیابی اور استحکام کے لیے تمام عوامل فراہم کیے ہیں۔ شیخ الازہر نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن اور سنت نبوی نے متعدد مقامات پر مرد اور عورت کے درمیان مساوات کے فلسفے کی اشارہ  کیا ہے انہوں نے خاندان کے تحفظ کو ایک عظیم مقصد بنایا، اور کہا کہ ہر فریق کو اس کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، یہاں تک کہ تاریک ترین حالات میں بھی اور جب ایک فریق کی طرف سے دوسرے سے نفرت کا  معاملہ کیا جا رہا ہو۔ ان میں اللہ تعالی کا یہ فرمان: {اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو} اور اس کا یہ فرمان: {لیکن اگر تم انہیں ناپسند کرو تو ہو سکتا ہے کہ  تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور خدا نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو}۔ اور آپ علیہ سلام کا فرمان: مومن مرد کو اپنے آپ کو کسی مومن عورت سے نفرت نہیں کرنی چاہئے، اگر وہ اس کی ایک خصلت کو ناپسند کرتا ہے، تو وہ اس کی دوسری خصلت سے راضی ہے۔ اور اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  کہ بہت سے مسلمانوں نے اللہ تعالی کے اس فرمان کا مفہوم نہیں سمجھا: "اور مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے"۔ انہوں نے اسے عورتوں پر مردوں کی ترجیح سے تعبیر کیا، لیکن سچ یہ ہے کہ یہاں درجہ  کا مفہوم  خاندان، اولاد، خرچ اور مرد پر دیگر ذمہ داریاں ہیں۔ امام اکبر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دور میں تشریف لائے جس میں عورتیں اپنے حقوق سے محرومی کا شکار تھیں، اور ان کے ساتھ انسانی سلوک نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ مردوں کو قتل کرنے میں جلدی تھی۔ ان کی بیٹیاں پیدا ہونے کے فوراً بعد وہ انہیں مٹی میں دفن کر دیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس معاشرے میں یہ اعلان کرنے کے لیے آئے تھے کہ ’’عورتیں مردوں کی ہم پلہ ہیں‘‘ اور یہ کہ مرد اور عورت کے درمیان مساوات، نیکی، تقدیر، مقام اور انسانیت میں برابری ہے۔ شیخ الازہر نے وضاحت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا کلچر قائم کیا۔ مرد اور صحابہ اور صحابیات کو یہ ثقافت وراثت میں ملی، اس لیے وہ اس کو لاگو کرنے کے خواہشمند تھے، اور انہوں نے آپ علیہ سلام  کی پیروی کی، سو عورت کئی شعبوں میں ابھری، جیسے قیادت اور علوم۔ وہ اسلامی معاشرے کی تعمیر میں مرد کے ساتھ شریک تھیں جو اس زمانے میں پھل پھول رہا تھا  اور اس کی وسعت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن جب اسلام کی تعلیمات اولین  صفوں سے اوجھل ہونے لگیں تو عورتوں کے مسائل سے نمٹنے میں رسم و رواج غالب آگئے۔ عورتیں اسلام کے عطا کردہ بہت سے حقوق سے محروم ہوگئیں، اور ایک نئی فقہ وجود میں آئی جو شریعت کی نصوص پر اتنی کاربند نہیں تھی جتنی کہ اس زمانے میں معاشرتی رسوم و رواج پر مبنی تھی۔ اس تاریخ سے لے کر آج تک مسلم خواتین اپنے بہت سے حقوق کھو چکی ہیں اور اسلامی معاشرہ وہ دوسری ٹانگ کھو چکا ہے جس سے وہ اپنی نشاۃ ثانیہ اور خوشحالی کے حصول کے لیے دوڑتا تھا۔ آپ نے تصریح کی کہ: "میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کی کمزوری اور ذلت کی ایک وجہ مرد اور عورت کے درمیان مساوات میں اسلام کی منطق کا فقدان ہے۔" انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کو ان کے حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے جو اسلام نے انھیں فراہم کیے ہیں۔
اپنی طرف سے ازبک وفد کے ارکان نے شیخ الازہر سے ملاقات اور اس قدیم ادارے میں جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے علم کا قبلہ سمجھا جاتا ہے میں اپنی موجودگی  پر خوشی کا اظہار کیا اور اسلام اور مسلمانوں کے مسائل کی حمایت میں ان کے اعلی اقدامات کی تعریف کی۔ اور الازہر کے اداروں اور اس یونیورسٹی میں تقریباً 3,000 ازبک طلباء کے زیر تعلیم ہونے پر فخر کا اظہلر کیا، اور انہوں نے الازہر کے ساتھ اس طرح سے تعاون جاری رکھنے کی اپنی خواہش پر زور دیا جو ازبکستان میں مسلمانوں کی خدمت کرے اور ان کی مذہبی، دعوتی اور علمی ضروریات کو پورا کرے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025