شیخ الازہر: بندے کا ایمان اللہ تعالی کے نام الخبیر (سب کچھ جاننے والا) سے روشن ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے دل کے رازوں اور اس میں موجود بیماریوں جیسے نفرت، حسد اور غصہ کو پہچان کر ان پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔
شیخ الازہر: انسانی علوم ناقص ہیں کیونکہ وہ بدلتے رہتے ہیں، لیکن خدا کا علم ابدی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ ماضی میں ہوا تھا، اور جو کچھ ہو رہا ہے ، اور جو کچھ مستقبل میں ہوگا، اور وہ کیسے ہوگا۔ (وہ سب جانتا ہے)۔
شیخ الازہر: تمام مخلوقات کو خدائی لطف سے ان کا حصہ ملتا ہے، یہاں تک کہ بے جان اشیاء کو بھی۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے کہا: خدا کا نام " الخبير ۔ سب کچھ جاننے والا" قرآنی نصوص، سنت نبوی اور علماء کے اجماع سے ثابت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ "وہ جو باطنی امور کو جانتا ہے۔" یہ بتاتے ہوئے کہا کہ "خبير"، اور"عالم"، میں فرق یہ ہے کہ عالم چیز کو جانتا ہے، لیکن خبير اس چیز کے باطن کو بھی جانتا ہے۔ اسی لیے اس کا استعمال پیشوں کے وصف، مثال کے طور پر، انجینئرنگ کے لیے ہوتا ہے "خبیر" کے ذریعہ، ہم کہتے ہیں کہ یہ "ماہر انجینئر" ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے پیشے کا گہرائیوں سے مطالعہ کیا اور اسے اس گہرائی سے سیکھا کہ اس کے طرح کا کوئی نہیں جانتا۔ تاہم، یہ (وصف) ذات الہی کے ساتھ درست نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ذاتِ الٰہی کا ’’ خبیر ‘‘ ہونا یہ ہے کہ وہ باطنی امور پر مطلع ہونے کے بعد یا مطلع کیے جانے کے بعد جانتا ہے، کیونکہ اس میں جہالت کے بعد علم ہے جیسا کہ انسانوں کے لیے ہے، اور یہ نقص ہے۔ اور نقص خداتعالی کے لیے مستحیل ہے۔
شیخ الازہر نے "امام طیب" پروگرام کی نویں قسط کے دوران وضاحت کی۔ تمام انسانی علوم اس لیے ناقص ہیں کہ وہ بدلتے رہتے ہیں اور تغییر پذیر ہیں ان میں اس سے قبل جھل اور خطا ممکن ہے جب کہ جو معلوم ہے وہ اس کے برعکس ہے۔
یہ سب نقص ہیں۔ اور اللہ کا علم اس سے منزہ ہے۔ خداتعالیٰ کا علم ابدی ہے اور جاری و ساری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی جانتا ہے جو کچھ ماضی میں وقوع پذیر ہوا تھا، اور جو کچھ ہو رہا ہے ، اور جو کچھ مستقبل میں ہوگا، اور وہ کیسے ہوگا۔ اس سب کے وجود میں آنے سے پہلے، (وہ سب جانتا ہے)۔ یہ الہی علم ہے، اور وہ اسے جامع، اور وسیع کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اور یہ ازلی اور ابدی علم ہے اور مستمر ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ مفکرین "خدا کے علم" کی تشریح میں اپنا راستہ کھو چکے ہیں، جب انہوں نے کہا کہ "اگر خدا سب کچھ جانتا تھا، تو مثال کے طور پر اگر وہ جانتا تھا کہ زید کسی وقت آئے گا اور شراب پیے گا اور سزا پائے گا، تو یہاں زید کا کیا قصور تھا؟ ہم ان کو یہ کہتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ یہاں "علم" صفت تاثیر نہیں ہے، بلکہ صفت انکشاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزوں اور مخلوقات کو ظاہر کرتا ہے، لیکن ان پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں تخلیق کرتا ہے۔
اور قدرت اور ارادہ کے گرد بات کرتے ہوئے آپ نے بیان کیا کہ یہ دونوں صفت تاثیر ہیں۔ قدرت ایک ایسی صفت ہے جس کا اثر ہوتا ہے اور ارادہ بھی صفت تاثیر ہے اور اس کا تعلق بھی ہے۔ اور وہ اختیار ہے۔ مثال کے طور پر، خداتعالی جانتا تھا کہ "فلاں دن فلاں بچہ پیدا ہو گا،" تو یہ ظاہر کرنے والا علم ہے۔ پھر " صفت قدرت" ظاہر ہوتی ہے جو اس بچے کو عدم سے نکال کر وجود میں لاتی ہے۔ یہ صفت قدرت ہے، اور تاثیر عدم سے وجود میں لانا ہے۔ پھر صفت ارادہ کا کا ظہور ہوتا ہے یہ بتانے کے لیے کہ وہ فلاں دن آئے گا، نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد آئے گا ، اور وہ فلاں شکل میں آئے گا نہ کہ دوسری شکل میں، اور اس کا طول اتنا ہو گا۔ کیونکہ صفت ارادہ تمام مخلوق کے لیے بہت سی چیزوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کرتی ہے جو اس کی ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ نہیں ۔ اس چیز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدا کی طرف سے اپنے بندوں پر اور درحقیقت تمام مخلوقات پر بہت بڑا احسان ہے۔ تمام مخلوقات کو اس کے لطف سے حصہ ملتا ہے، یہاں تک کہ بے جان اشیاء کو بھی، کیونکہ کہ ان میں شعور اور احساس ہے۔ اور اسی امر پر اس کا یہ قول دال ہے کہ "اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا، اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو"
پس انہوں نے پہاڑوں کو اپنے ساتھ تسبیح کا حکم دیا اور یہ حکم کسی مردہ کو نہیں دیا جاتا۔
اس سوال کے جواب میں کہ: "خدا کے نام ، خبیر (سب کچھ جاننے والا)، کا بندے کے ایمان اس کے اعمال اور زندگی پر کیسے اثر ظاہر ہوتا ہے آپ نے اس بات کی تاکید کی کہ یہ کام بندے کے اپنے باطن سے وابستگی اور اس کے دل کے رازوں پر مطلع ہونے سے ہوتا ہے۔ یہاں دل کی بیماریاں سے مراد نفرت، حسد اور غصہ ہے۔ اور یہ مشہور ہے کہ یہ آفات قلب ہیں۔ اور وہ بہت زیادہ ہیں، بندے کو ان کا علم ہونا چاہیے، اسے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے اور ان کے بارے میں جاننا چاہیے۔ کیونکہ اگر وہ اس بات کو نظر انداز کرتا ہے تو اس کے لیے خدا کے نام خبیر سے کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ وہ مکمل طور پر محروم ہے۔ اپنا حصہ لینے والا وہ ہے جو اپنے اور اپنے دل کے امراض سے مسلسل باخبر رہتا ہے یعنی وہ ان کا جاننے والا ہے۔ اسے زندگی اور اس کے مظاہر میں مشغول نہیں ہونا چاہئے اور اس کے دل میں موجود برائیوں، بیماریوں، اور گناہوں کی طرف توجہ نہیں دینی چاہئے۔ تو پس ہم دل کے امراض سے لڑنے میں خدا کے کے نام "خبیر " سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ درحقیقت، لوگوں میں بہت کم ایسا ہے کہ کوئی ایسا شخص مل جائے جو تھوڑی دیر کے لیے بھی رکے، اور ان بیماریوں اور آفات کے حوالے سے اپنا محاسبہ کرے۔