شیخ الازہر نے بتایا کہ مومن کس طرح بردبار ہو سکتا ہے۔
شیخ الازہر: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دشمن کے گھروں کو گرانے اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔
شیخ الازہر: صہیونیوں نے جنگ کی تمام ممانعتوں کا ارتکاب کیا، اور خدا تعالی نے ان کی سزا کو مؤخر کیا ہے تاکہ وہ اپنے جرم کے مطابق سزا پائیں ۔
مجھے تکلیف ہوتی ہے جب میں فلسطینی طلباء سے ملتا ہوں اور ان سے سنتا ہوں کہ ان کے گھر ان کے خاندانوں پر گرا دیے گئے ہیں۔
عزت مآب امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر، مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین نے وضاحت کی:کہ لفظ حلیم کا معنی حلم سے ماخوذ ہے، یعنی وہ شخص جو معاف کرنے والا اور صبر کرنے والا ہو، جو غصے دلانے والے سے نہ بھڑکے یا نافرمان کی نافرمانی سے نہ بھڑکے اور سزا دینے میں جلدی نہ کرے۔ اور اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا معنی خداتعالیٰ کے حوالے سے یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے عذاب میں جلدی نہیں کرتا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ( اور اگر اللہ تعالی لوگوں کو ان کے ظلم کے عوض پکڑ لیا کرتا تو اس (زمین) پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا) حدیث نبوی میں بھی اس کا ذکر ہے۔ کہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو سب کچھ جاننے والا حلم والا ہے) جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی مصیبت آتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا (لا إله إلا الله العليم الحليم) پڑھتے۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ خدا کے ننانوے ناموں میں سے ایک خوبصورت نام ہے۔
امام اکبر نے آج اپنے رمضان پروگرام "امام طیب" کی دسویں قسط میں اپنی گفتگو کے دوران کہا۔ کہ اگرچہ حلم صبر کو مستلزم ہے، لیکن حلم اور صبر میں فرق ہے۔ جیسا کہ خداتعالیٰ حد سے آگے بڑھنے والوں کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ خواہ کفر، نافرمانی یا ناانصافی کے ذریعے وہ حدود سے تجاوز کر گئے ہوں۔ جب وہ دنیا میں ان سے عذاب کو مؤخر کرتا ہے اور وہ اس پر قادر ہوتا ہے تو اسے حلم کہتے ہیں، لیکن جب وہ ان پر یا ان میں سے کسی پر آخرت میں عذاب نازل کرے گا تو وہ صبور ہے۔ بہت صبر کرنے والا، کیونکہ اس نے سزا کو مؤخر کیا تھا۔
اس سوال کے جواب میں: کہ "اللہ تعالیٰ تمام لوگوں پر، خواہ مومن ہوں یا کافر، کیسے مہربان ہے؟ غزہ کی پٹی میں صہیونی جو کچھ کر رہے ہیں، اس کے باوجود ان پر مہربانی کرنے میں کیا حکمت ہے؟" امام اکبر نے وضاحت کی کہ خدا تعالی نے عارضی طور پر ان سے عذاب کو ہٹا دیا ہے لیکن ان کو اس کی سزا ملے گی جو وہ معصوم فلسطینیوں کے خلاف کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔(اور اللہ تعالی کو ان کاموں سے ہر گز بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم انجام دے رہے ہیں بس وہ تو ان کو فقط اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی)۔
امام طیب نے وضاحت کی کہ خدا کے نام " الحلیم" کا ہمارے اعمال اور ہماری زندگیوں میں اظہار کیسے ہو ۔ بتایا کہ یہ معاف کرنے کی مشق کرنے اور دوسروں سے درگزر کرنے سے حاصل ہوتا ہے، مومن کو معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہونا چاہیے۔ پس اس کا لوگوں سے بات کرنا صدقہ ہے اور اس کا مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ اگر کوئی اس کے حق میں غلطی کرے تو اسے (سزا دینے میں) جلد بازی نہیں کرنی چاہئے اور اگر وہ ملامت بھی کرے تو نرمی سے ملامت کرے۔ وہ شروع سے کوئی پوزیشن نہ لے، کہ وہ دوسرے شخص سے بات نہیں کرے گا، اسے دیکھے گا نہیں، نہ اس سے رابطہ کرے گا۔ اور خاص طور پر اگر وہ رشتہ دار ہوں، جیسے اس کا بھائی یا بہن (تو بالکل جلدی نہ کرے) ۔
شیخ الازہر نے مزید کہا کہ حلم کے معیار پر عمل کرنے میں جو چیز مدد دیتی ہے وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی صفات اور اعمال کا مطالعہ کرنا ہے، کہ وہ کیسے درگزر کرنے والے تھے، وہ کیسے صبر کرتے تھے، وہ کیسے مہربان تھے حتیٰ کہ جانوروں پر بھی، یہاں تک کہ بچوں کے ساتھ بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح مسلمانوں کو دشمن کے لشکر میں عمارت گرانے یا کسی نابینا، عورت یا بچے کو قتل کرنے یا کسی مسلمان کے لیے کسی جانور کو مارنے سے منع کیا، الا یہ کہ وہ صرف کھانے کے لیے اس کی ضرورت ہو تو وہ (اسے مارے) اور وہ بھی بقدر ضرورت، یا شہد کی مکھیوں کو منتشر کرنے ، یا کھجور کے درختوں کو کاٹنے سے منع کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک عجیب بات ہے، کہ یہ سب کچھ دشمن کی فوج کے حوالے سے ہے۔ "اسی طرح، جو کوئی ہتھیار اٹھانے اور قتل کرنے میں شریک نہیں ہے، اس پر زیادتی کرنا حرام ہے۔ پس راہب کو اس کی عبادت گاہ میں قتل کرنا یا اسے نقصان پہنچانا حرام ہے۔
امام اکبر نے وضاحت کی کہ اگر ہم اسلام میں جنگ کے احکام اور غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا موازنہ کریں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونی دشمن نے تمام ممنوعہ کام کیے یا ان میں سے اکثر کا ارتکاب کیا، وہ بے دفاع شہریوں کا تعاقب کرتے ہیں ۔ اگر وہ نکلتے ہیں تو ان کو قتل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بچوں، عورتوں، مریضوں، مساجد، اسپتالوں، یونیورسٹیوں اور گھروں میں فرق نہیں کرتے۔
امام اکبر نے اپنے شدید دکھ کا اظہار کیا کہ جب وہ جامعہ الازہر میں زیر تعلیم فلسطینی طلباء سے ملتے ہیں، تو گفتگو کے دوران پتہ چلتا ہے، کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے گھر منہدم ہو گئے ہیں، جس سے ان کے پورے خاندان متاثر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہاں کالج آف میڈیسن، فارمیسی یا کسی اور کالج کی طالبہ کی کیا حالت ہوتی ہے جب اسے یہ خبر ملتی ہے کہ اس کا پورا خاندان فوت ہو گیا ہے اور اس کا گھر گر گیا ہے؟ اس کی حالت کیسی ہوتی ہو گی اور وہ اپنی پڑھائی کیسے مکمل کر رہی ہو گی؟ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر کیا: (اور اللہ تعالی کو ان کاموں سے ہر گز بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم انجام دے رہے ہیں بس وہ تو ان کو فقط اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی)۔