امام اکبر: خدا غافر، غفور اور غفار ہے، اس کا ستر انسان کے اندر اور اس کے دل کے باطن تک کو ڈھانپ لیتا ہے۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر، مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین نے وضاحت کی: کہ خدا کا نام " الغفار بخشنے والا" قرآن پاک میں تین صورتوں میں مذکور ہے وہ غافر، غفور اور غفار ہے، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر صیغے کا مدلول دوسرے صیغے کے مدلول سے مختلف ہے۔ پس غفور مبالغہ کا صیغہ ہے جو فعول کے وزن پر ہے۔ یہ نہ صرف کسی چیز کے وقوع پذیر ہونے کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس کے استحکام، طاقت اور تکرار کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے صبور اور شکور ہے۔ جبکہ "غافر" فاعل کے وزن پر ہے، جو مبالغہ پر دلالت نہیں کرتا ہے۔ یہ صرف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ واقعہ پیش آیا ہے جہاں تک "غفار" کا تعلق ہے، تو یہ "فعال"کے وزن پر ہے ، جو تسلسل اور دوام کا فائدہ دیتا ہے۔
شیخ الازہر نے آج اپنے رمضان پروگرام "امام طیب" کی بارہویں قسط میں اپنی گفتگو کے دوران مزید کہا۔ کہ ’’غافر‘‘ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔
"غفور" اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خدا بڑا بخشنے والا ہے۔ اور ’’غفار‘‘ کا مستفاد یہ ہے کہ اس کی مغفرت کو دوام حاصل ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تینوں صیغے " غفر" سے مشتق ہیں ، جس کا معنی چھپانا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کو لوگوں سے چھپاتا ہے، اور یہ معاف کرنے، اور نظر انداز کرنے کے معنی میں بھی آتے ہیں، یعنی وہ اس دنیا میں گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ پھر انہیں مٹا دے گا اور اس کے بعد قیامت کے دن انہیں عذاب نہیں دے گا۔ نیز اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یہ ستر انسان کے داخل میں جو کچھ ہے اور جو اس کے دل میں ہے یہاں تک کہ اس کی جسدی مادی طرف کو بھی ڈھانپ لیتا ہے ۔
امام اکبر نے وضاحت کی کہ وہ صفت جو خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ خاص ہے اور کسی اور کی طرف متعدی نہیں ہوتی اسے " صفت ذات" کہتے ہیں۔ جیسے کہ صفت وجود ہے پس خدا تعالیٰ موجود ہے، اور یہ وہ صفت ہے جو صفات میں پہلی شمار ہوتی ہے، جیسا کہ اسے " صفت نفسیہ" بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالی کی ذات اور نفس سے ہے، جہاں تک غافر کا تعلق ہے ، یہ ’’صفات افعال‘‘ ہے، یعنی وہ مخلوق کے اعمال اور گناہوں کو بخش دے گا۔
اللہ تعالی کی بخشش کے مستحق بندے کی خصوصیات کے بارے میں امام اکبر نے وضاحت کی کہ معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ وہ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرے۔ اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اس نظریے کی نمائندگی کرنے والے بہت زیادہ لوگ نہیں ہیں، لیکن اہل سنت وجماعت وہ قدیم اور جدید دور میں مسلمانوں کی اکثریت ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بندے کا حق نہیں ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے تو یہ اس کے فضل و کرم ہے۔ اور اگر گناہ گار بندہ توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ لیکن اگر اس نے توبہ نہ کی تو معتزلہ کہتے ہیں کہ اسے عذاب دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ اسے سزا دے۔ کیونکہ وہ اس کی نافرمانی پر اصرار کرتے ہوئے مر گیا۔ جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس کا معاملہ خدا کے سپرد ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ خدا تعالیٰ پر لازم ہے کہ اس کو عذاب دے، اور جو شخص اطاعت میں مرے اس کے بارے میں بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالی پر لازم ہے کہ وہ اسے جزا دے اس کا بدلہ دے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔