شیخ الازہر: ضروری ہے کہ شکر نعمت کی جنس سے ہونا چاہیے۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب ١٢.jpg

شیخ الازہر: ڈاکٹر کا شکر ادا کرنا غریبوں کا علاج کرنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا ہے۔
 
شیخ الازہر: عالم پر خدا کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا اپنے علم کو لوگوں میں پھیلانا ہے۔
 
 
شیخ الازہر نے کہا: اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے شکر کی دو قسمیں ہیں: پہلا نظری شکر ہے وہ ہمارے اعمال کی تعریف کرنا ہے۔ قرآن پاک میں بہت سی آیات ہیں جو مومنوں کی تعریف کرتی ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: {یقیناً مومنین فلاح پا گئے جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں}۔
دوسری قسم عملی شکر  کی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ تھوڑے عمل  پر بہت زیادہ اجر دیتا ہے۔ قرآن میں بہت سی آیات ہیں جو اس معنی کی تصدیق کرتی ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں)، اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے}۔
خداتعالیٰ کی طرف سے اجر سات سو گنا دیا جاتا ہے، اور کبھی  دوگنا  بھی کیا جا سکتا ہے، اور یہ آیات انسان کو اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں، خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔
 
آپ  نے "امام طیب" پروگرام کی پندرہویں قسط میں وضاحت کی۔ کہ اللہ تعالیٰ سخی ہے، اس کی سخاوت کی کوئی حد نہیں اور انسان کا ذہن اس کی وسعت اور بندے کی حد سے زیادہ عزت کی وجہ سے اس کے کرم کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔ ان میں سے  اس کا یہ فرمان: {وہ کون ہے جو خدا کو قرض حسنہ دے اور پھر وہ  اس کو کئی گنا بڑھا دے گا}۔  سو اس آیت میں خدا تعالیٰ نے شکر کو بیان  کیا ہے جس کا مطلب ہے تھوڑے سے کام کا بڑا اجر۔ انہوں نے مزید کہا کہ بندہ خواہ کتنی ہی نیکیاں کر لے، وہ اس دائمی نعمت کے مقابلے میں کچھ نہیں ہیں  جو بطور جزا اللہ تعالیٰ اسے دیتا ہے۔ اور ان (عمل اور جزا)  کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ( انسانی عمل ) محدود ہے اور وہ (جزا)  لامحدود ہے، اور آپ محدود کو لامحدود سے منسوب نہیں کر سکتے۔
 
شیخ الازہر نے وضاحت کی کہ حمد خوبصورت شے کی تعریف ہے، اور اللہ تعالی، پاک ہے، قابل تعریف، خوبیوں کے لائق، معاف کرنے والا اور قدر دان ہے۔ لیکن  شکر کا ایک وسیع مفہوم ہے، جو آپ کے ساتھ کی گئی ایک خوبصورت چیز کے لیے کیا گیا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حقیقی شکرگزاری خدا کا  شکر ادا کرنا  ہے، جہاں تک بندے کے شکریہ کا تعلق ہے تو یہ حقیقی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ شکر کا تبادلہ ہے۔
حقیقی شکر وہ ہے جس میں کوئی انتظار، کوئی تبادلہ نہ ہو۔ اور یہ سب بندوں کی شکر گزاری میں ہوتا ہے۔ حقیقی  شکر وہ شکر ہے جو ان چیزوں سے مستغنی ہو اور وہ  اللہ تعالی کا شکر ہے یہ وہ شکر ہے جو اجر کی امید نہیں رکھتا ہے، لیکن اس کے برعکس، وہ متصدق ہے بندہ شکر ادا کرنے کے باوجود اس قدردانی  کا مستحق نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ جہاں تک بندے کی شکر گزاری کا تعلق ہے تو یہ وہ شکر ہے جس کا  اللہ تعالی مستحق ہے۔
 
آپ نے مزید کہا کہ بندے کو مسلسل شکر ادا کرنا چاہیے، یعنی  اسے شکور ہونا چاہیے یعنی اس کی شکرگزاری محض اس جملے کی تکرار نہ ہو جو یہ ہے، جیسے کہ ’’اے خدا، تیری حمد اور شکر ہے جب اس کے پاس کوئی نعمت آتی ہے۔ لیکن شکر نعمت کی جنس سے ہونا چاہیے۔ یعنی اگر اسے پیسہ دیا جائے تو اس کا شکر یہ نہیں ہے کہ وہ  کہے  "اے اللہ، تیری حمد و ثناء ہے۔ بلکہ اس مال کی نعمت کا شکر اس مال میں سے رقم  نکالنا ہے۔ جیسے زکوٰۃ اور خیرات کی ادائیگی، پس اس طرح آپ نے اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا  کہ مومن کو حکم ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں  سے حسن سلوک کرے اور انہیں صدقہ کرے۔
 
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق: { اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ} آیت میں امر واضح ہے لہذا  آدمی کو اپنے رشتہ داروں کو صدقہ دینا چاہیے۔
 
امام اکبر نے اس بات پر اپنی گفتگو کا اختتام کیا  کہ علم کی بھی زکوٰۃ ہے، عالم کو دوسروں کو سکھانا چاہیے۔ یہ اس کے علم کی زکوٰۃ ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اس نے نعمت علم کا شکر ادا نہیں کیا۔ جس ڈاکٹر کو طبی علم دیا گیا ہے، اس کے لیے اس نعمت کا شکر اسی نعمت کی جنس سے ہونا چاہیے۔ لہذا اسے غریبوں کا علاج کرنا اور ان کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ایک اور شکر بھی ہے، جو لوگوں کا شکر ادا کرنا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق: "جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر ادا نہیں کرتا۔"  بندے کا شکر ادا کرنا اسلامی شریعت کا تقاضا ہے اور یہ حدیث اس عمل کے نیک عمل ہونے کے لیے کافی ہے۔
 
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025