امام اکبر: خدا کا نام " العلی سب سے اعلیٰ" خداتعالیٰ کے بلند مرتبہ کو ثابت کرتا ہے۔
شیخ الازہر: بندہ خواہ کتنا ہی بلند مرتبہ ہو وہ نامکمل ہے اور یہی چیز اس کے لیے موزوں ہے۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر، چیئرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز نے وضاحت کی کہ: (العلی) اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے ہے اس کا تذکرہ قرآن پاک اور سنت نبوی میں ہے اور مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے ۔
اور اس کا معنی علو اور ارتفاع سے ماخوذ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ علو حسی اور جسمانی بھی ہو سکتا ہے، یعنی اجسام کی بعض کی بعض پر فوقیت۔ اور کبھی کبھی اس کا مطلب رتبہ، عظمت، عزت اور دیگر صفات میں ارتفاع سے ہو سکتا ہے جن کا اندازہ کسی مادہ یا جسم سے نہیں لگایا جا سکتا۔ جیسے کے علو مرتبت، کہا جاتا ہے کہ فلاں کا درجہ بلند ہے یعنی اس کے پاس عزت اور قابلیت ہے۔
امام اکبر نے اپنے رمضان پروگرام " امام طیب" کی سولہویں قسط میں اپنی گفتگو کے دوران مزید کہا۔ کہ تمام اہل سنت جب اسم العلی کا ذکر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لیے علو منزلت ثابت کرتے ہیں نہ کہ جگہ، بعض صفات کی تاویل بھی کرتے ہیں؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ظاہری معنی مراد نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول: ’’ {فإنك بأعيننا» بے شک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے} کی تاویل علم کے ساتھ کی جاتی ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس بات پر کوئی تحکم نہیں ہے، چونکہ عربی زبان میں یہ معنی وارد ہوا ہے، کہ آنکھ علم، دیکھنے، مراقبہ اور مشاہدے کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ اور اسی طرح حفاظت کے معنی میں بھی آتی ہے، جیسا کہ وہ کہا جاتا ہے ۔اور اپنی آنکھ سے ہماری حفاظت فرما جو کبھی نہیں سوتی ہے جیسے عربی زبان میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہاتھ قدرت کے معنی میں ہے۔ {خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے} کا مطلب ہے: اس کی قدرت ان کی طاقت کے اوپر ہے۔`
شیخ الازہر نے اس بات پر زور دیا کہ بندے کو یقین ہونا چاہیے کہ اس کے لیے بلندی کی مکمل سطح تک پہنچنا ممکن نہیں ہے بلکہ یہ صرف اللہ کے لیے ہے۔ وہ ہمیشہ محسوس کرے کہ اس کا رفعت نامکمل ہے اور یہی اس کے لیے موزوں ہے۔ نیز، ایک رفعت ایسی ہے جس تک بنی آدم کا کوئی فرد نہیں پہنچ سکتا، اور یہ وہ رفعت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی تھی۔ یہ ہماری نسبت سے رفعت ہے ، لیکن اللہ العلی کی نسبت یہ رفعت بہت کم ہے۔