امام اکبر نے خدا کے اسم الکبیر کے العلی اور المتعال کے ساتھ آنے کے راز سے پردہ اثھایا

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب ١٢.jpg

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطور فاتح مکہ میں داخل ہوئے، تو آپ نے عاجزی اور تواضع کی وجہ سے سر جھکایا ہوا تھا۔
انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنی بشری طاقت کے مطابق اللہ تعالی کے اخلاق سے مزین ہونے کی کوشش  کرے۔
امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر، مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیئرمین نے نے خدا کے اسم الکبیر کے العلی اور المتعال  کے ساتھ آنے کے راز سے پردہ اثھایا:  جیسا کہ سورہ لقمان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اور بے شک اللہ تعالی بلند اور بڑا ہے}، اور سورہ رعد میں ارشاد باری تعالی: { ﻇاہر وپوشیده کا وه عالم ہے (سب سے) بڑا اور (سب سے) بلند وباﻻ ہے)۔  اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر لفظ "الکبیر" کو خالصتاً لغوی طور پر لیا جائے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حوادث یا مخلوقات کی صفات کی طرف   جاتا ہے۔ پس اس کا مطلب ہے بوڑھا، پھولا ہوا یا جسم میں بڑا۔ یہ حسی معنی ہیں۔ چونکہ اس نام سے کسی نہ کسی طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے، یا اس کے معنی بعض اوقات  بے خبری میں  حسی معنی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ تو اس لیے قرآن پاک میں اس ضابطے  (العلي الكبير،  اور الكبير المتعال)  کے تحت ذکر  کیا گیا ہے،  اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں سے علو ہی سمجھا جاتا ہے۔ وہ سب سے بڑا، سب سے بلند، مطلق علو کا مالک  ہے۔ لہذا یہ کسی بھی ایسے شک کو ختم کرتا ہے جس سے یہ احساس ہو کہ یہ اس کا حسی معنی مراد  ہے۔
اور اس جملے کے ساتھ خدا کی تعریف (الله أكبر كبيرًا والحمد لله كثيرًا ) "خدا عظیم ہے، اور خدا کی تعریف بہت زیادہ ہے۔" کرنے کی فضیلت کے بارے میں کہا کہ: یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی تسبیح کا حصہ ہے اور اس کا اجر ہے۔ بعض احادیث میں بھی اس کا ذکر آیا ہے جن میں عید کی تکبیروں کا ذکر ہے۔ ان میں سے وہ احادیث ہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے اور اس وقت آپ کا مظہر فاتح جیسا نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنے اونٹ پر اپنا سر جھکا جھکائے ہوئے تھے اور  متکبر نہیں تھے۔ اس بدسلوکی کے باوجود جو ایک طویل عرصے تک ان کے اہل خانہ کو برداشت کرنا پڑی،  جب کہ وہ اس وقت اپنی انگلی کے اشارے  سے انہیں تباہ کر سکتے تھے۔ لیکن وہ اندر داخل ہوئے اور یہ  کہہ رہے تھے۔ (لا إله إلا الله وحده صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده)، ترجمہ: (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس نے  اپنا وعدہ سچا کیا ، اپنے بندے کو فتح دی، اور تنہا اس نے ہی  ہی گروہوں کو شکست دی۔) یہ ان میں سے ہے جو امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک عید کی تکبیروں میں مذکور ہیں۔ آپ  نے فتح کی نسبت اپنی طرف نہیں کی اور کہا: ’’یہ انبیاء  ہیں۔‘‘کہ انہوں نے ہر اس عظمت سے اپنے آپ کو علیحدہ کر دیا جس کا وہ سبب تھے، اور اگر وہ چاہتے تو اپنے اوپر منطبق کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ہر طرح کی قوت اور طاقت کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا۔
 
 
خاندان کے سربراہ کو "الکبیر" کا نام دینے کے بارے میں، جیسا کہ بالائی مصر میں ہوتا ہے ، تو وہ اس اعتبار سے ہوتا ہے  کہ یہ شخص بڑی عمر اور مرتبے کا مالک ہے، شیخ الازہر نے توجہ دلائی کہ اگر کسی بندے کو کبیر کہا جائے تو اس کا مطلب بہت ناقص ہے۔ کیونکہ یہاں الکبر سے مراد عمر نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب امارت  اور کنٹرول ہے۔  اور یہ بندے میں ناقص ہے۔ لیکن جب اس کا اطلاق خداتعالیٰ پر ہوتا ہے تو یہ مقدس ہوتا ہے۔ اور مقدس کا مطلب ہے عیب سے پاک۔ اور جو چیز ادھوری اور ناپاک ہے اور انسانوں میں پائی جانے والی خامیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ جیسے ناانصافی، مزاج داری اور تعصب، ہاں جب  الکبیر سے ذات الہی کا وصف بیان کیا جاتا ہے  تو اس سے مراد مطلق کبیر ہوتا  ہے۔ وہ ہر اس چیز سے پاک ہے جو الکبیر بشر  کو درپیش ہوتی  ہے۔ سو اشتراک  لفظ میں ہے، معنی میں نہیں۔
اپنی عملی زندگیوں میں اللہ تعالی کے نام  (الکبیر) کے اظہار  کے بارے میں امام اکبر نے وضاحت کی کہ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنی بشری طاقت کے مطابق اللہ تعالی کے اخلاق سے مزین ہونے کی کوشش  کرے۔ اور بتایا کہ اللہ تعالی کے ہر نام مبارک کی تجلیات اور اشارات ہیں اور عقلمند مسلمان وہ ہے جو کسی بھی اسم مبارک کے جمال یا جلال کو اپنے اوپر اطلاق کرے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024