سپریم کونسل برائے اسلامی امورکی کی 31 کانفرنس میں امام طیب کے پیغامات : ہمارے وطن ہماری گردنوں پر امانت ہیں جن کی حفاظت ضروری ہے۔
وکیل الازہر ڈاکٹر محمد ضوینی نے سپریم کونسل برائے اسلامی امورکی 31 کانفرنس جو «حوار الأديان والثقافات»( مذاہب اور ثقافتوں کا مکالمہ) کے عنوان سے منعقد کی گئی تھی اس میں امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف کا سلام پیش کیا ، اور ان کی سچی تمنا کا اظہار کیا کہ یہ کانفرنس ایسی سنجیدہ توصیات پیش کرے جس سے تعمیری مکالمہ کے اصول و ضوابط طے ہوں، اور فکرو ثقافات کو غلط نظریات ، منحرف منصوبوں کے ذریعے اچک لینے ،اور بدنام کرنے والوں کی کوششوں سے تحفظ فراہم ہو ۔
اسی طرح وکیل الازہر نے کانفرنس میں شرکت کرنے والی شخصیات کے نام امام اکبر کے پیغامات کو پیش کیا ، جو یوں ہیں پہلا پیغام : آسمانی وحی کا نزول اس لیئے ہوا کہ دنیااور آخرت میں انسان کو سعادت کا راستہ دکھائے ، اسے رحم دلی ، حق،اور خیرو بھلائی کی تعلیم دے ، اس کےجان مال عزت آبرو کی حفاظت کرے ، لہذا اگر آپ کہیں یہ سنیں یاپڑھیں کہ کسی دین خونریزی اور پامالیِ حقوق کی اجازت دی تو یہ اچھی طرح جان لیں کہ اس دین کی حقیقت کو پیش کرنے میں دھوکہ دھڑی سے کام لیا گیا ہے ۔
دوسرا پیغام: اسلام آسمانی سابقہ پیغامات سے کوئی الگ مذہب نہیں ہے، بلکہ دینِ الٰہی ایک ہے اور وہ دین اسلام ہے ، اور اللہ کی طرف دعوت، حکمت ، مواعظِ حسنہ اور ایسی پرسکون گفتگو سے ہوگی جو کسی کو تکلیف نہ پہنچائے ، نہ خودمخاطب کی گستاخی کرےاور نہ اس کے عقیدے کی گستاخی کرے۔ اور یقینا اسلام ہر اس دعوت سے بری ہے جس میں کسی عقیدے کی طرف اسلحے کی قوت اور زور و زبردستی ، یا مرض و فقر جیسی مجبوری کا فائدہ اٹھاکردعوت دی گئی ہو کیونکہ قرآن کا یہ فیصلہ ہے :لاإكراه في الدين" دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔
تیسرا پیغام : یقینا قرآنی فسلسفے میں لڑائی اور امن پسندوں سے قتال کی کوئی جگہ نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ لفظ " سلام" اور اس سے مشتق الفاظ قرآن و حدیث میں بھرے پڑےہیں ، اگر یہ تعبیر صحیح ہوتو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اسلام اور سلام ایک ہی سکے کےدو رخ ہیں ۔ اور دلیل کے طور پر اتناہی کافی ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ کلمہِ " سلام " اپنے مشتقات کے ساتھ ایک سو چالیس مرتبہ قرآن میں وارد ہواہے، جب کہ کلمہِ "حرب" قرآن میں کل چھ مرتبہ واردہواہے ، لہذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ کائنات کے ساتھ ، نیز اردگردرہنے والے ،بلکہ پوری موجودات کے ساتھ مسلمانوں کے جو تعلقات و معاملات ہیں اُن میں اسلام امن و سلامتی کو اصل اور بنیاد قرار دے ۔
چوتھا پیغام: انسانوں کے درمیان مکالمہ ایک ایسی ضرورت ہے جس کا تقاضہ زبانوں کا اختلاف اور ان میں پایا جانے والا رنگ برنگ کا تنوع کرتاہے ، انسانوں کے درمیان مکالمہ ان مشترکات پر ہو جن پر وہ متفق ہیں، یا وہ ان مشترکات پرجو کژت کے ساتھ ان میں پایا جاتاہے۔ پانچواں پیغام : ہمارے وطن ہماری گردن پر بطور امانت ہیں ، ان کی حفاظت ہم پر واجب ہے ، افراد، ادارے ، عوام اور حکومتیں سب کی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ ہمیں قوت و طاقت ،اورادوات عقل و فکر ملی ہے اس سے اپنے وطن کی حفاظت کریں ۔