شیخ الازہر نے عرب اتحاد پر زور دیا تاکہ تقدم اور ترقی کے حصول اور بحرانوں کا مقابلہ کرنے اور ان پر قابو پانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بحال کیا جائے

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

شیخ الازہر نے امت کے علماء سے "اتحاد علماء" کی اپیل کی ہے جو اسلام کی نامور شخصیات کو اکٹھا کرے  اور عصری اختلافات کے دروازے بند کرے۔
شیخ الازہر: امت کے علما کا اتحاد لازماً اس کے قائدین کے درمیان اتحاد کا سبب ہو گا اور عرب اور اسلامی مفادات کو حاصل کرے گا۔
 
شیخ الازہر نے امت سے ایک "فیصلہ کن تبدیلی" اور "نئے دور" کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس امت کی تاریخ اور تہذیب  کے لائق اس کا صحیح مقام بحال کیا جا سکے۔
 
شیخ الازہر: تنازع  اور تقسیم کی وہ کیفیت جو امت میں در آئی ہے، اس کی وجہ سے ہر کوئی بڑے بڑے معاملات میں ’’توازن کھو بیٹھا‘‘ ہے۔
 
شیخ الازہر: مسئلہ فلسطین اور قدس شریف کے بارے میں عربوں کا ردعمل اس امت پر خدا کی نعمتوں کے حجم کی عکاسی نہیں کرتا۔
 
 
امام اکبر  پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف نے تاکید کی ہے تنازع  اور تقسیم کی وہ کیفیت جو ایک عرصے سے امت میں در آئی ہے، اس نے ہر ایک کو اس سے متاثر کیا ہے جو انتہائی معاملات سے نمٹنے کے دوران "توازن کے کھونے" کی حالت سے مشابہت رکھتا ہے۔ اور وہ یکے بعد دیگرے آنے والے بحرانوں کا درست طریقے سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ جو بھی ہمارے عرب اور اسلامی وطن کے نقشے کو غور سے دیکھتا ہے۔ وہ بہت غمگین ہوتا ہے کہ فلسطین اور دیگر عزیز ممالک کا کیا حال ہو گیا ہے۔  تو وہ جلدی سے یقین کے ساتھ نتیجہ اخذ کرتا ہے جو تضاد کو قبول نہیں کرتا: کہ ہم دوبارہ تقدم، ترقی اور اپنے بحرانوں کا ذمہ داری سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر سکیں گے سوائے عرب اتحاد کے حصول کے ، اقتصادی انضمام کی پالیسی پر عمل درآمد، عوامی مفادات کو ترجیح دینے اور مستقبل کے ویژن اور مشترکہ منصوبوں پر متفق ہونے کے جو سوچے سمجھے اور قابل عمل ہوں۔
 
بروز ہفتہ لیلۃ القدر کی تقریب میں صدر جمہوریہ عبدالفتاح سیسی کی موجودگی میں اپنے خطاب کے دوران شیخ الازہر نے فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر عربوں کے باہمی تعامل کی سطح پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔  انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین اور قدس شریف کے حوالے سے ہمارے معاملات ان  بے پناہ انسانی اور قدرتی وسائل، بے پناہ اور بے پایاں توانائیوں اور تمام شعبوں سائنسی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی میں تخلیقی ذہنوں کی نعمتوں کی عکاسی نہیں کرتے جو  اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں،  اور سب سے بڑھ کر: اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین اور کمزوروں اور مظلوموں پر اس کی رحمت پر غیر متزلزل اعتماد ہے کہ وہ ظالم اور متکبروں پر نظر رکھنے والا ہے۔ اور وہ ان سے بے خبر نہیں ہے۔ اور وہ ان کو مہلت دیتا ہے اور ان کے لیے توسیع کرتا ہے، جب وہ ان کو پکڑے گا تو ان کو چھوڑے گا نہیں۔ 
 
امام  اکبر نے کہا کہ آج ہمارا خطہ جن المیوں، دردوں، دکھوں اور تاریک احساسات سے بھرا ہوا ہے  اس میں لازم ہے کہ اسے ماضی کے عرب دور اور ایک نئے دور کے درمیان ایک فیصلہ کن موڑ کی نمائندگی کرنا چاہیے جس میں عرب اور اسلامی قوم اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اسلام اور الہامی مذاہب کی قدروں کی تائید میں طاقت اور ناقابل تسخیر ہونے کے اسباب استعمال کرے۔ تاکہ امت اپنی  تاریخ اور تہذیب کے لائق مقام حاصل کرے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  کہ اس راستے پر پہلا صحیح قدم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل ہے: آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہارا رکھو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔[انفال: 46]،  پس (فَتَفْشَلُوا) کا مطلب ہے: "تم بزدل ہو جاؤ گے" اور ‏‏(وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ) کا مطلب ہے: "تمہاری طاقت ختم ہو جائے گی، تمہارے  ممالک ختم ہو جائیں گے، اور تمہاری تہذیبیں تباہ ہو جائیں گی۔ 
۔
اپنی گفتگو کے دوران، شیخ الازہر نے امت کے علماء سے بلا تاخیر اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ تاکہ اہل قبلہ سے تعلق رکھنے والے  سنی، شیعہ اور اباضیہ کی نامور اسلامی شخصیات کا  اتحاد وجود میں آ سکے۔ وہ اپنی عقلوں  اور علوم سے قبل اپنے  دلوں اور مشاعر کے ساتھ ایک میز پر جمع ہوں-  تاکہ جن باتوں پر متفق ہونا ضروری ہے اور جن باتوں پر اختلاف کرنا جائز ہے کی حدود طے کریں۔ ہمیں اپنے اختلافات میں صحابہ و تابعین کے اختلاف کی تقلید کرنی چاہیے۔ یہی وہ فرق ہے جس نے اسلامی علوم کو تقویت بخشی اور انہیں آسانی، مہربانی اور رحمت کے لازوال منبع میں بدل دیا۔ اور اپنے عصری اختلافات کا دروازہ بند کریں، جس نے ہمیں بہت زیادہ اختلاف، تنازعات، اور رنجشوں سے دوچار کیا ہے، اور ہمیں دشمنوں اور برا چاہنے والوں کے لیے آسان شکار بنا دیا ہے۔
شیخ الازہر نے اپنے اس اعتماد پر زور دیتے ہوئے اپنی تقریر کا اختتام کیا کہ امت کے علماء کا اتفاق لازمی طور پر اس کے قائدین کے اتفاق پر منتج ہوگا۔ یہ انہیں عرب اور اسلامی مفادات کے دائرے میں رہتے ہوئے قومی مفادات کے حصول کی طرف دھکیلے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور مدد سے ایسا کرنے کے قابل ہیں۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024