امام اکبر: کچھ لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں خدا نے ان کی نسل اور خون کی قسم / بلڈ گروپ کی وجہ سے منتخب کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ مذہب کے نام پر دوسروں کے ساتھ ناانصافی اور جارحیت کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔

برنامج الإمام الطيب ٢٠٢١.jpeg

گرینڈ امام  پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف  نے  بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مفہوم  "کہ تم لوگوں پر گواہ بنو گے اور رسول تم پر گواہ ہوں گے" یہ ہے کہ تم قیامت کے دن لوگوں کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دو گے جن کی وجہ سے سیدھے راستے سے وہ گمراہ ہوئے تھے۔. اس سلسلے میں ہم اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ قیامت کے دن گواہی دینے اور گواہی دلوانے  کا معیار صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ یہ عام ہے اور ان کو بھی  شامل ہے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی شامل ہے، حتیٰ کہ انسان کے اپنے اعضاء کو بھی شامل ہے ، اور یہ اس کے مالک کے اعمال کی گواہی دیں گے  جو اس نے اپنی دنیاوی زندگی میں کیے تھے۔ اور آنے والی آیات کریمہ یہی مفہوم دے رہی ہیں : { اور انبیاء اور شہداء کو لایا جائے گا } ۔ { اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے}۔
شیخ الازہر نے رمضان پروگرام "امام طیب" کی تیسری قسط کے دوران اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ملت اسلامیہ کی گواہی اور دیگر اقوام کی گواہی میں فرق ہے۔  وہ یہ ہے کہ امت کی گواہی عام ہے اور اس میں تمام امتیں شامل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق  ہے کہ ’’تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو‘‘۔اور یہ ایک خاص امت  پر گواہی دینے کے لیے ایک شہید بھیجنے کے مقابل ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جسے نظر انداز یا کم نہیں کیا جا سکتا اور جہاں تک رسول صلى الله عليه و سلم کی اپنی امت  پر  گواہی کا تعلق ہے۔ تو  یہ قیامت کے دن اس کے اعمال کی گواہی ہے۔ اسی کی نظیر خدا کے رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس میں ہے: { جب تک میں ان کے ساتھ تھا میں ان پر گواہ تھا، اور جب آپ نے مجھے  لے لیا تو آپ ان پر نگہبان ہیں، اور آپ ہر چیز پر گواہ  ہیں }۔
امام اکبر  نے ملت اسلامیہ کی خصوصیات کے بارے میں اپنی گفتگو جاری رکھی اور کہا کہ ان خصوصیات میں سے اس امت  کی ایک  دوسری خصوصیت یہ  ہے کہ ۔ یہ بہترین امت ہے جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے۔  جس کی وجہ سے یہ  نیکی، اخلاق، نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرتی ہے  اور اللہ تعالی پر ایمان سے مزین ہے ۔’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا ہوئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم خدا پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔  ان میں مومن بھی ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ ۔‘‘ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ آیت دو چیزوں کی طرف اشارہ کرتی ہے: اول: اس قوم کو قوموں میں بہترین قرار دینا ایک خدائی اعزاز ہے جس کی عزت، طاقت اور ناقابل تسخیر ہونے کی کوئی حد نہیں۔ یہ ایک بلند مقام ہے اور امت  کو جتنا ہو سکے ہر وقت اور جگہ اسے مضبوطی پکڑے۔ اور اچھی طرح جان لیں کہ آیت کریمہ واضح ہے کہ اس قوم کی دوسروں پر بھلائی اس بات سے مشروط ہے کہ وہ حق کی تلقین کرے اور اس پر عمل کرے اور برائی سے منع کرے اور اس سے اجتناب کرے اور خدا، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اس امت کو افضل  قرار دیا جانا ایک مخصوص مشن کا نتیجہ اور ایک مخصوص کردار کا ثمر ہے۔ یہ کوئی قومی، نسلی یا عنصری اعزاز نہیں ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تمام الہی مذاہب اور آسمانی پیغامات اس بات پر متفق ہیں کہ لوگ کنگھی کے دانتوں کے برابر ہیں۔ اور یہ کہ لوگوں میں ایک معیار کے علاوہ کوئی تفریق نہیں ۔ اور وہ  ہے: انسان اور انسانیت کے فائدے کے لیے نیک اعمال کرنا۔ پھر وہ - اس کے بعد - درجہ اور تقدیر میں برابر ہیں۔ "’’اے لوگو تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضلیت  نہیں اور نہ سرخ کو کالے پر اور نہ کالے کو سرخ پر، سوائے تقویٰ کے"۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امت  اسلامیہ  کو عزت دینے اور بعض قوموں یا امتوں  کو عزت دینے کے دعووں میں یہی فرق ہے جو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے انہیں تمام اقوام میں سے منتخب کیا ہے۔ انسانیت کے فائدے اور بھلائی کے لیے نہیں، نہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے لیے، بلکہ اس قوم کی نسل اور ان کے خون کی قسم کی وجہ سے۔ اور خدا کی طرف سے دوسرے لوگوں میں سے صرف ان  کا انتخاب.. اور اس طرح کے دوسرے وہم  جو ان اصحاب  کو جو دوسروں کو  احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں، اور اخلاقی ذمہ داری کو پورا کرنے  واجب کی ادائیگی ،اور  ضمیر کی پکار،سے مکمل طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں ۔ اور یہ چیز انہیں  ظلم اور استبداد پر قائم رہنے کی ترغیب دیتی ہے، اور انہیں مذہب اور الہی پیغامات کے نام پر دوسروں کے خلاف زیادتی کرنے پر اکساتی ہے۔
شیخ الازہر نے وضاحت کی کہ دوسرا معاملہ جس کی طرف آیت شریفہ میں اشارہ  ہے۔ وہ ۔’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا ہوئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم خدا پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔  ان میں مومن بھی ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔
یہ بات واضح اور قطعی ہے کہ امت مسلمہ کی باقی اقوام پر خیریت ، شر اور باطل کا مقابلہ کرنے اور سب سے پہلے اپنے بچوں اور اپنی رعایا کے درمیان نیکی اور سچائی کا دفاع کرنا پھر وہ جہاں بھی ہے اور جیسے بھی ہے وہ   مذکورہ بالا کوشش سے مشروط ہے۔ 
اور یہ کہ اگر وہ اس عالمی کردار کو ترک کر دے گی تو لازمی طور پر گرے گی جیسا کہ دوسری قومیں گریں ہیں اور گریں گی۔ جیسے کہ  وہ ممالک اور لوگ جو خدا کے وعدے کا انکار کرتے ہیں اور اسے اپنی پیٹھ  پیچھے ڈال  دیتے ہیں۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج ہمیں یہاں کی کمزوری یا وہاں کی جو غفلت کا سامنا  ہے۔ الحاد اور خدا کے سیدھے راستے سے انحراف کی دعوتوں کی وجہ سے ہے۔ جس کا زہر مسلمانوں پر سمندروں کے پار سے، مغرب اور مشرق سے اُڑایا جاتا ہے۔ یہ ہر اس شخص کے لیے تنبیہ کی گھنٹی ہے جس کے پاس دل ہے یا جس کو سماعت عطا کی گئی ہے اور اس پر گواہ ہے۔  "امام طیب" پروگرام پانچویں سال مصری اور عرب چینلز پر نشر کیا جا رہا ہے۔
یہ پروگرام رمضان 2016 میں شروع کیا گیا تھا اور اس کے پہلے سال میں خواتین، نوجوانوں، الحاد اور دہشت گردی جیسے عمومی مسائل پر گفتگو کی گئی تھی۔
2017 میں، دہشت گردی  انتہا پسندی، خاندان، تراث اور تجدید، اور خدا کی طرف دعوت جیسے اس نے مسائل پر گفتگو کی گئی تھی۔
اپنے تیسرے سال 2018 میں، اس نے مذہبی، فکری اور فلسفیانہ مسائل جیسے کہ عقیدہ، ایمان، خدا کے وجود، اس کے اسماء و صفات، اور اسلام کی بنیادوں اور ستونوں پر گفتگو کی۔
جہاں تک اس کے چوتھے سال 2020 کا تعلق ہے، اس نے بہت سے جدید  مسائل جیسے "کورونا" اور  اس سے متعلق عصری فقہی مسائل  اقدار کا مجموعہ جیسے والدین کی عزت، حیا، عدل، رحم، عاجزی، شائستگی، عفت اور تواضع  پر گفتگو کی۔
اپنے پانچویں سال 2021 عیسوی میں، یہ پروگرام اسلام کی خصوصیات، اسلام کا اعتدال اور اس کے مظاہر، شرعی تکالیف  کے قواعد، شریعت کی آسانی، شریعت کے مصادر، اور سنت نبوی  اور تراث کے بارے میں شکوک و شبہات کا ازالہ کیا گیا۔


خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025