شیخ الازہر: انتہا پسندی اور تقصیر دونوں ہی قبیح اور قابل مذمت ہیں اور یہ اسلام کے اعتدال سے خروج کی نمائندگی کرتی ہیں۔

شيخ الأزهر- التشدد والتقصير كلاهما قبيح ومذموم ويمثلان خروجا عن وسطية الإسلام.jpeg

گرینڈ امام  پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف  نے  فرمایا کہ ''اسلام کا اعتدال'' اس امت سے اس کی ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ انسانی تہذیب کی حفاظت اور اس کی ترقی میں اسے صراط مستقیم سے ہٹنے سے بچانے کا فریضہ ادا کرے۔ اور مادی اور تکنیکی فراوانی کے باوجود جدید ترقی کی تبدیلی سے بدحالی، بیگانگی اور آوارہ گردی کے منبع سے بچانے کا فریضہ ادا کرے جب  کہ حلیم  طبع شخص کنفیوز ہو جاتا ہے اسے معلوم نہیں ہوتا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، کیا لینا ہے یا کیا چھوڑنا ہے۔ اور یہ کہ "امام طیب" پروگرام کی پچھلی تین اقساط میں بیان کیا گیا  کہ اسلام کی سب سے نمایاں خصوصیات یہ ہیں: اعتدال، اور  توسط اس کے تمام احکام اور شریعت  میں ، یہاں تک کہ عقائد اور عبادات سے متعلق بھی۔ 
انہوں نے اپنے رمضان پروگرام "امام طیب" کی چوتھی قسط کے دوران وضاحت کی جو کہ پانچویں سال نشر کیا جاتا ہے۔ پچھلی تین اقساط اس موضوع   ''وسطیت اسلام' 'کی بنیادی اقساط ہیں: یہ قسط اور اس کے بعد  جو آئیں گی وہ اعتدال کے اہم ترین پہلوؤں اور مظاہر کی اس کی  عملی شریعت اور اس کے روزمرہ کی زندگی کے احکام  سے متعلق  تفسیر ہوں گی ۔ آپ نے کہا کہ: اعتدال کے وہ مظاہر جن کا کوئی محقق اس خالص دین میں انکار نہیں کر سکتا۔ پس اسلام کا عقیدہ ایک طرف الحاد اور انکار الوہیت اور دوسری طرف شرک اور تعدد الہ  کے درمیان  ایک معتدل  عقیدہ ہے۔ نیز اسلام میں عبادات  ان مذاہب کے درمیان  جن میں عبادت عملی پہلو سے بہت دور، محض  شعوری روحانی غور و فکر پر مشتمل ہے اور ان مذاہب میں جو 'رہبانیت' اور عبادت کے منقطع ہو جانے  اور زندگی سے دستبرداری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کے درمیان ایک شے ہے۔
شیخ الازہر نے اس بات کی تصدیق کی کہ صرف اسلام ہی "ایک مسلمان کو خدا کو یاد کرنے اور پکارنے کی ترغیب دیتا ہے۔"
وہ دل کی حرکت  اور زندگی کے ساتھ  جدوجہد میں ہے۔ اسے نہ کسی مخصوص جگہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی مخصوص ہیت کی ۔
اور مسلمان خدا کی عبادت کرتا ہے وہ زمین میں  چلتا ہے، تاکہ اس کو تعمیر کرے  اور اس کا رزق کھائے۔ مسلمان کھانے پینے میں افراط اور تفریط کے بغیر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اور مسلمان اپنے آپ کو "دنیا کی زندگی" کی زینت سے آراستہ کرتا ہے لیکن بغیر تعجب  تکبر اور غرور  کے۔ اس پر روزانہ، سالانہ یا ایک بار عمر میں  عبادت لازم کی جاتی ہے ۔  تاکہ اللہ تعالیٰ سے مستقل طور پر جڑا رہے۔ اور اسے شیطانوں کے اغوا، ان کے فتنوں، روح کے فتنوں اور برے ساتھیوں کی برائیوں سے محفوظ رہے۔
اور انہوں  نے وضاحت کی کہ اعتدال اس سچے مذہب میں ایک حفاظت کی نمائندگی کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس کے خلاف "باہر نکلنا" "خود ہی مذہب سے نکل جانے  " کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ خروج خواہ افراط  کی صورت میں ہو یا تفریط کی صورت میں۔ ان میں فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو کچھ مقرر کیا ہے اس میں اضافہ افراط  ہے۔ اور تفریط خدا کی شریعت اور اس کے احکام میں کمی کرنا  ہے۔ اور انتہا پسندی اور غفلت دونوں بدصورت اور قابل مذمت ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں اعتدال  سے نکلنے کی نمائندگی کرتے ہیں جو کہ عدل  ہے،  اور جو شخص خدا کے دین میں تشدد کرتا  ہے اور اس کے احکام میں حد سے تجاوز کرتا ہے؛ پس وہ لوگوں کے لیے  ان چیزوں کو حرام کرتا ہے جو خدا نے ان کے لئے حلال کی ہیں، یا ایسی چیز کا مطالبہ کرتا  ہے جسے خدا نے ان پر واجب نہیں کیا ہے۔ یہ ان سے  بہترین حالت میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس سے بہتر پوزیشن میں ہے جو مذہب کو جھوٹا ثابت کرنے والے فتوے یا رائے جاری کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ اور کسی عہدے، پیسے یا وقار کے لیے  خدا کی شریعت  پر زیادتی کرتے ہیں۔ لوگوں  پر وہ چیزیں حلال کریں گے جو ان پر حرام ہیں  یا ان پر حلال و حرام کے احکام میں تدلیس سے کام لیتے ہیں۔ دونوں اسلام کی حرمت کے خلاف ہیں اور دونوں جھوٹے ہیں۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ  ان کے لیے دین میں تشریع کا حق ہے حالانکہ اللہ تعالی نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ایسی ہر کوشش -  جو مبالغہ آرائی یا تفریط  پر مشتمل ہے - درحقیقت اسلام کو اس کے مواد سے خالی کرنے کی کوشش ہے جسے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ  وہ اس امت کا دین ہو
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے اعمال  اور اقوال سے لاگو کیا۔ اور مسلمان ہر دور میں اس گروہ کے ذریعے آزمائے گئے  جو  لوگوں کو "فتوؤں اور آراء سے گمراہ کرتے ہیں جو نوجوانوں کو "مذہب" اور شریعت کے احکام کی پابندیوں سے فرار ہونے پر آمادہ کرتے ہیں، یا سختی میں  بند ہو کر اور معاشرے سے کنارہ کش ہو کر گمراہ کرتے ہیں
ان اور ان کے زہروں سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے  سوائے اس کے کہ "اہل ذکر جو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتے ہیں" اور اس سے ڈرتے ہیں۔ ان سے سوال کیا جائے۔ وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔
امام اکبر  نے اشارہ کیا کہ اسلامی شریعت  میں اعتدال  کے مظاہر کے بارے میں گفتگو  سے پہلے تین مسلمات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ پہلا: یہ کہ قرآن مسلمانوں کے لیے سماجی قانون سازی اور اقتصادی اور سیاسی قانون سازی کے عمومی اصولوں کا پہلا ذریعہ ہے۔ وہ جہاں بھی ہوں، اور وقت اور جگہ کے اعتبار سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔
یہ عمومی قانون سازی کا وہ  فریم ورک ہے جسے جدید زبان میں شریعت کے ثوابت کا نام دیا  جاتا ہے۔ جیسے تبدیل ہونے والے احکام کو متغیرات  سے ورسوم کیا جاتا ہے۔
اور بدلتے ہوئے انسانی پہلو کے بارے میں قرآن مجید کے احکام کا تعلق معاملات سے ہے۔ یہ سب عمومی احکام  ہیں  جو "تبدیلی کے قانون کے ساتھ چلنے کی اجازت دیتے ہیں جو کائنات  کو اس کے تمام انسانوں، جانوروں اور پودوں کے ساتھ چلاتا ہے"
شیخ الازہر نے مزید کہا کہ دوسری ثابت شدہ بات یہ ہے کہ:   قرآن مجید میں یا مستند سنت میں اس  چیز کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو قریب یا دور سے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہو  - کہ اس کی اسلامی شریعت  کسی خاص تاریخی عرصے  یا کسی خاص دور کے لیے ہے۔ تاکہ مسلمانوں کے پاس کوئی بہانہ ہو اگر وہ ان احکام  سے ’’رہائی‘‘ چاہتے ہیں۔ اور  دوسری  شریعتوں  کے ذریعے اس سے استغنا حاصل کرنا چاہیں جو ان کے لیے ان کے معاشرے، ان کے سوچنے کے طریقوں اور ان کے طرز زندگی کے طریقے  کو منظم کرے۔
 
بلکہ قرآن و سنت کی  نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ  اس شریعت کی امتیازی حیثیت  لچک اور حرکت کے ساتھ اس کا دوام اور ثبات ہے۔ اور ایک اور پہلو میں تبدیلیوں کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کی صلاحیت کا پایا جانا ہے 
اور تیسری مسلمہ چیز یہ ہے جسے  منصفانہ سوچ رکھنے والے بھی قبول کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ  بھی جو اسلام کو نہیں مانتے۔ اس مذہب کی قانون سازی نے انسانیت کو اقدار، تصورات اور قانون سازی کی وہ دفعات فراہم کی ہیں جو انسانی تہذیبوں، ماضی اور حال کی تاریخ میں سب سے زیادہ حیرت انگیز قدروں سے واقف ہیں۔
 
"امام طیب" پروگرام پانچویں سال مصری اور عرب چینلز پر نشر کیا جا رہا ہے۔
یہ پروگرام رمضان 2016 میں شروع کیا گیا تھا اور اس کے پہلے سال میں خواتین، نوجوانوں، الحاد اور دہشت گردی جیسے عمومی مسائل پر گفتگو کی گئی تھی۔
2017 میں، دہشت گردی  انتہا پسندی، خاندان، تراث اور تجدید، اور خدا کی طرف دعوت جیسے اس نے مسائل پر گفتگو کی گئی تھی۔
اپنے تیسرے سال 2018 میں، اس نے مذہبی، فکری اور فلسفیانہ مسائل جیسے کہ عقیدہ، ایمان، خدا کے وجود، اس کے اسماء و صفات، اور اسلام کی بنیادوں اور ستونوں پر گفتگو کی۔
جہاں تک اس کے چوتھے سال 2020 کا تعلق ہے، اس نے بہت سے جدید  مسائل جیسے "کورونا" اور  اس سے متعلق عصری فقہی مسائل  اقدار کا مجموعہ جیسے والدین کی عزت، حیا، عدل، رحم، عاجزی، شائستگی، عفت اور تواضع  پر گفتگو کی۔
اپنے پانچویں سال 2021 عیسوی میں، یہ پروگرام اسلام کی خصوصیات، اسلام کا اعتدال اور اس کے مظاہر، شرعی تکالیف  کے قواعد، شریعت کی آسانی، شریعت کے مصادر، اور سنت نبوی  اور تراث کے بارے میں شکوک و شبہات کا ازالہ کیا گیا۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025