2025ء کی رمضان نشریات کی آٹھویں قسط میں شیخ الازہر کی گفتگو: اللہ کی حفاظت تمام انسانوں پر محیط ہے، چاہے وہ فرمانبردار ہوں یا نافرمان

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

اللہ پاک ہی قرآن پاک کی حفاظت کرنے والا ہے وہ ہم تک بغیر کسی تبدیلی اور تحریف کے ایسے ہی پہنچا ہے جیسے ہمارے نبی علیہ السلام نے ہم تک پہنچایا ہے 
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف چیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کی حفاظت اُس کے اسمِ مبارک «الحفيظ» (محافظ) سے ماخوذ ہے  جو تمام انسانوں کو شامل ہے، چاہے وہ اللہ کے اطاعت گزار ہوں یا گناہگار۔ انسان جب اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تب بھی وہ اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے، اور اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ نافرمان لوگوں کے پاس بھی اللہ کی بے شمار نعمتیں موجود ہوتی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیاوی نعمتیں اللہ کے نزدیک اطاعت یا نافرمانی کی بنیاد پر نہیں ملتیں۔ اللہ تعالیٰ نافرمان کو فوراً سزا نہیں دیتا، بلکہ اسے مہلت دیتا ہے تاکہ شاید وہ توبہ کرلے یا پلٹ آئے۔ اس میں اللہ کے اس قولِ قدسی کی عملی جھلک دکھائی دیتی ہے: "یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔"

شیخ الازہر نے اپنے رمضان پروگرام «الإمام الطيب» کی آٹھویں قسط میں کہا کہ اللہ کے اسم "الحفيظ" کے دو معانی ہیں: 1. ضبط : اس کا مطلب ہے کہ کوئی چیز بھولنے یا چوکنے سے محفوظ رہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ "فلاں شخص قرآن کو زبانی یاد رکھتا ہے"، یعنی وہ ایک حرف میں بھی غلطی نہیں کرتا۔ اور دوسرا معنی: حراست یا حفاظت: یعنی کسی چی ز کو زوال یا نقصان سے بچانا، اور یہ صرف اللہ کی حفاظت سے ممکن ہوتا ہے۔ اللہ کی زمین و آسمان کی حفاظت کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو قابو میں رکھے ہوئے ہے اور ان کو انسان کے فائدے کے لیے مسخر کر رکھا ہے۔ وہی آسمان کو زمین پر گرنے سے روکے ہوئے ہے تاکہ انسان اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کر سکے۔

شیخ الازہر نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم کا محافظ ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ}
(بے شک ہم نے ہی ذکر [قرآن] نازل کیا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں) یہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ قرآنِ کریم میں ایک حرف کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ ہمیں بغیر کسی تحریف یا تبدیلی کے ویسے ہی ملا ہے جیسے نبی کریم ﷺ نے اسے امت کو پہنچایا تھا، ۔

آخر میں، شیخ الازہر نے کہا کہ اللہ کی طرف سے حفاظت کے ساتھ ساتھ انسان پر بھی لازم ہے کہ وہ خود اپنی جان اور عقل کی حفاظت کرے، کیونکہ یہی اللہ کی دو عظیم نعمتیں ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو گناہوں اور خواہشات کی شدت سے محفوظ رکھے، اور اپنے ذہن کو ان نقصاندہ خیالات و مواد سے بچائے جو دین یا عقیدہ میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ اسی صورت میں انسان حقیقی طور پر اپنی حفاظت کر سکتا ہے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025