شیخ الازہر نے اسمِ مبارک "الحسیب" کا مفہوم واضح کرے ہوئے قرآن، سنت اور اجماع سے اس کا ثبوت بیان کیا

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

امامِ اکبر: اللہ دنیا میں کافروں کی سانسوں تک کا حساب رکھتا ہے، اور آخرت میں ان سے «اونٹنی کے دودھ پلانے کے وقفے» کے برابر وقت کا بھی حساب لے گا۔
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیرمین نے اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک "الحسیب" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ نام قرآن کریم، سنتِ نبویہ اور امت کے اجماعی عقائد سے ثابت ہے، اور یہ اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے۔

اپنے رمضان المبارک کے پروگرام "الإمام الطیب" کی گیارہویں قسط میں گفتگو کرتے ہوئے امام طیب نے بتایا کہ "الحسیب" کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے: {اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے} اور یہ متعدد احادیث میں بھی آیا ہے، جن میں سب سے نمایاں حدیث حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے، جو اکثر اسمائے حسنیٰ کی تشریحات میں شروع میں پیش کی جاتی ہے۔ امام طیب نے مزید کہا کہ امت مسلمہ کے اجماع نے بھی اس نام کو اللہ تعالیٰ کے 99 ناموں میں شامل تسلیم کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ "الحسیب" کا ظاہری معنی "کافی" ہے، اور عربوں کی زبان میں یہ اس مفہوم میں مستعمل ہوتا رہا ہے، جیسے وہ کہتے ہیں: "نَزَلْتُ عَلَى فُلانٍ فَمَا أَحْسَبَنِي" یعنی "میں فلاں کے پاس اترا اور وہ میرے لیے کافی ہوا"۔ اسی معنی کی وضاحت قرآن کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے: {اے نبی علیہ السلام آپ کے لیے اللہ کافی ہے اور وہ مومنین حنہوں نے آپ کی اتباع کی}۔ (انفال: 64۔)  امام اکبر نے کہا کہ اس آیت کو اس طرح سمجھنا کہ "حسبک الله وحسب من اتبعک" (اللہ تمہارے لیے کافی ہے اور تمہارے ساتھیوں کے لیے بھی) ایک معنوی غلطی ہے، کیونکہ یہ اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کو کفایت کا ذریعہ قرار دیتا ہے، جب کہ درست مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہارے لیے بھی کافی ہے اور تمہارے ساتھیوں کے لیے بھی۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "الحسیب" کا ایک اور اہم مفہوم محاسب (یعنی حساب لینے والا) بھی ہے  جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:  (ہم ان کے لیے سب کچھ گن گن کر تیار کرتے ہیں) اور(ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں) اللہ تعالیٰ بندوں کے ہر چھوٹے بڑے عمل، حتیٰ کہ ان کی سانسوں کا بھی حساب رکھتا ہے، اور وہ اتنی سرعت سے حساب لیتا ہے کہ کوئی عمل اس سے پوشیدہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی ایک حساب دوسرے کو مشغول کرتا ہے۔

"کافی" ہونے کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے امام اکبر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عدم سے وجود میں لانے میں کافی تھا، اور اس کی بقا کو اپنی مشیت اور علم کے تحت جاری رکھا۔ انسان اپنی بقا کی ضمانت خود نہیں دے سکتا، بلکہ وہ اس ذات کا محتاج ہے جو اسے عدم سے بچا سکے۔ انہوں نے "القبضہ" کے اشعری عقیدے کا حوالہ دیا، جس کے مطابق کائنات اللہ کی مٹھی میں ہے، وہ جسے چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے فنا کر دیتا ہے۔ اور کہا کہ اللہ کا محاسبہ دنیا و آخرت دونوں میں ہے دنیا میں وہ کافروں کی سانسوں کا بھی حساب رکھتا ہے  جو ان کے عذاب کی تیاری ہے، اور آخرت میں وہ تمام مخلوقات کا حساب ایک لمحے میں کر دے گا، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: "اللہ تعالیٰ مخلوق کا حساب اتنی مدت میں کرے گا جتنی دیر ایک اونٹنی کے دو دودھ دوہنے کے درمیانی وقفے میں ہوتی ہے۔"

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025