شیخ الازہر: انسان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے، وہی اس کے لیے کافی اور حساب لینے والا ہے
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیرمین نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک "الحسیب" کسی انسان کے لیے اُس وقت تک استعمال نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کے ساتھ "ال" (یعنی تعریفی لاحقہ) ہو؛ چنانچہ یہ کہنا درست نہیں: "فلاں الحسیب"۔ البتہ اگر "ال" کے بغیر صرف "حسیب" کہا جائے تو انسان کے لیے یہ نام رکھنا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حُسنیٰ میں "ال" مطلق کمال کی علامت ہوتی ہے، اور یہ کمال صرف اللہ ہی کو زیب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے، وہی ہے جو اُسے رزق عطا کرتا ہے، اور اُس کے تمام معاملات میں مدد کرتا ہے۔ اُس نے انسان کے لیے زمین اور آسمان کو مسخر کر دیا، سمندروں کو بھی اس کے فائدے کے لیے بنا دیا۔ امام غزالی نے اس تصور کی خوبصورت وضاحت کی ہے، جب بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ماں کا دودھ بچے کے لیے کافی ہوتا ہے تو امام غزالی فرماتے ہیں: "جان لو! دودھ ماں کا نہیں ہوتا، بلکہ وہ بھی اور ماں بھی اللہ ہی کی طرف سے ہیں، اور اسی کے فضل و کرم سے ہیں؛ وہی ہر ایک کے لیے کافی ہے، اور کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کسی دوسرے کے لیے 'کافی' ہو سوائے اللہ تعالیٰ کے۔"
اپنے رمضان المبارک کے پروگرام "الإمام الطیب" کی بارہویں قسط میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الازہر نے کہا کہ کسی چیز کا کسی اور کے لیے "کافی" ہونا — یہ ایک سطحی سوچ ہے۔ دراصل تمام اشیاء ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں اور آخرکار اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ہی منحصر ہیں۔ وہی ہے جو سبب اور مسبب کو جوڑتا ہے، وہی اثر پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اور کائنات میں ہونے والا ہر کام اُسی کے اذن سے ہوتا ہے۔ امام اکبر نے مزید کہا کہ اشاعرہ کے مطابق اس کائنات میں اصل فاعل صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے تمام اثرات (نتائج) اسی ایک فاعل کی طرف سے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آگ روئی کو جلاتی ہے، تو حقیقت میں آگ نہیں جلاتی بلکہ اللہ ہی جلاتا ہے۔ آگ محض ایک ذریعہ (سبب) ہے، اور اثر (جلنا) اللہ کے حکم سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔
انہوں نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ ظلم و خوف کے موقع پر "حسبنا الله ونعم الوكيل" (اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے) کہنا ایک عظیم دعا ہے، جس کی اصل قرآن مجید میں ہے:
{جن لوگوں سے (دوسرے) لوگوں نے کہا کہ: "لوگ تمہارے خلاف جمع ہو چکے ہیں، پس ان سے ڈرو"، تو اس بات نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا، اور انہوں نے کہا: "ہمارے لیے اللہ کافی ہے، اور وہی بہترین کارساز ہے"۔
پس وہ اللہ کے انعام اور فضل کے ساتھ لوٹے، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی۔}(آل عمران: 173-174)
یہ آیت اللہ کا وعدہ ہے کہ جو شخص سچے دل اور یقین کے ساتھ یہ دعا کرے گا، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ انسان کو چاہیے کہ ہر صبح یہ دعا کرے تاکہ اللہ اُسے انسانوں کے شر، حادثات اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے۔
امام طیب نے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ بندے کا اللہ کے اسم "الحسیب" سے نصیب دو طرح سے ہوتا ہے: کفایت کے معنی میں — یعنی انسان اپنے مال و رزق میں سے دوسروں کو عطا کرے، ان کی ضرورت پوری کرے، اور ان کے لیے کافی بننے کی کوشش کرے۔ محاسبت کے معنی میں — یعنی بندہ خود اپنے اعمال کا محاسبہ کرے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا "اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب لیا جائے"۔ انسان کو ہمیشہ اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ جان سکے کہ اس نے کیا کمایا ہے اور اگر غلطی ہو گئی ہو تو فوراً اللہ سے توبہ کر لے۔