شیخ الازہرنے اللہ تعالیٰ کے اسم "الجلیل" کی حقیقت کی وضاحت کی، اور انسانی صفات سے تشبیہ دینے سے منع کیا

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیرمین  نے کہا کہ "الجلیل" اللہ تعالیٰ کے اسمائے حُسنیٰ میں شامل ہے، اگرچہ یہ نام قرآن کریم میں براہِ راست اس صیغے میں وارد نہیں ہوا، لیکن "ذُو الجلال" کی صورت میں آیا ہے، اور ان دونوں ناموں کا مفہوم لغوی و شرعی لحاظ سے یکساں ہے۔

انہوں نے اپنے رمضان المبارک کے سلسلہ وار پروگرام "الإمام الطیب" کی تیرہویں قسط میں گفتگو کرتے ہوئے وضاحت کی کہ "ذُو الجلال" کا مطلب ہے: "جلالت و عظمت کا مالک"۔ چونکہ "الجلیل" اور "ذو الجلال" دونوں کا ماخذ (جڑ) "جلال" ہے، اس لیے دونوں کا معنی و مفہوم یکساں ہے۔ جیسے کہ عربی زبان میں کہا جاتا ہے: "ذو العلم" یعنی "عالم"، اور "ذو الكرم" یعنی "کریم"۔ لہٰذا، اگر اللہ تعالیٰ کے لیے "الجلال" ثابت ہے تو وہ "الجلیل" بھی ہے، اور یہاں "ذُو الجلال" کوئی اضافی صفت نہیں بلکہ اللہ کے جلال کے اثبات کا مؤکد (تاکیدی) اظہار ہے۔

جب ان سے "الجلیل" کے لغوی مفہوم کے بارے میں پوچھا گیا، تو امام اکبر نے وضاحت کی کہ اس کا ماخذ فعل "جلَّ" ہے، جس کے عربی زبان میں تین معانی ہیں: عطا کرنا (دینا) 2- عمر میں بڑا ہونا (بوڑھا ہونا) 3- عظمت و بزرگی والا ہونا تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ "عمر میں بڑا ہونا" اللہ تعالیٰ کے لیے نامناسب اور ناقص صفت ہے، کیونکہ یہ انسانی کمزوری کی علامت ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمی سے منزّہ و پاک ہے۔ اس کے برعکس، پہلے اور تیسرے معانی — یعنی "عطا کرنے والا" اور "عظمت و جلال والا" — اللہ تعالیٰ کے لیے موزوں و لائق ہیں۔

امام طیب نے ایک مشہور واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب قریش کے کفار دارالندوہ میں نبی اکرم ﷺ کے قتل کی سازش کر رہے تھے، تو ابلیس ایک "شیخ جلیل" (بوڑھے معزز شخص) کی شکل میں وہاں ظاہر ہوا تاکہ ان کی رہنمائی کرے۔ اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ "جلیل" کا استعمال انسانوں کے لیے عمر یا رتبے کے اعتبار سے ہوتا ہے — اور یہ مفہوم اللہ تعالیٰ کے لیے درست نہیں، کیونکہ اللہ کی صفات میں "قدَم" (ازل) اور "بقا" (ہمیشگی) شامل ہیں۔ یعنی: اللہ کا وجود نہ کسی وقت شروع ہوا، نہ ہی کبھی ختم ہوگا۔

امام اکبر نے متنبہ کیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفات کو انسانی اوصاف سے تشبیہ دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا: کہ "اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا وجود خود بخود واجب اور قائم ہے، اور اُسے مخلوق کے اوصاف یا پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا۔"

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025