شیخ الازہر: "اللہ کی تخلیق میں حکمت انسانی فہم سے بالاتر ہے"

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

اللہ تعالیٰ حکیم ہے، جو ہر مخلوق کی تفصیلات اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی جانتا ہے
شیخ الازہر کی حدیثِ نبوی کے منکرین سے خبردار رہنے کی تنبیہ

عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیرمین نے اپنے رمضان المبارک کے پروگرام "الإمام الطيب" کی انیسویں قسط میں اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک "الحکیم" کی تشریح اور تجزیہ پیش کیا اور وضاحت کی کہ یہ اسم قرآنِ کریم میں 42 مرتبہ آیا ہے اور اکثر اوقات دوسرے اسماء جیسے "العزيز"، "العليم"، "الخبير" کے ساتھ جُڑا ہوا ملتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:  ﴿ وہ غالب حکمت والا ہے﴾ علمائے امت کا اس پر اجماع ہے کہ "الحکیم" اللہ تعالیٰ کے ثابت شدہ صفاتی ناموں میں شامل ہے، کیونکہ یہ قرآن و سنت دونوں میں آیا ہے، اور اس کی تائید حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں اسمائے حسنیٰ بیان ہوئے ہیں۔

شیخ الازہر نے اپنے رمضان المبارک کے پروگرام "الإمام الطيب" کی انیسویں قسط میں صحابی شُرَيح بن ہانئ کا واقعہ بیان کیا جنہیں اُن کی دانائی کی بنا پر اُن کی قوم نے "ابو الحکم" (یعنی حکمت والے) کی کنیت دی تھی۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس کنیت کے بارے میں معلوم ہوا، تو آپ ﷺ نے اُنہیں اس سے روکا، اس لیے کہ "الحَکَم" صرف اللہ کے لیے موزوں ہے، اور فرمایا:  "اللہ ہی حَکَم ہے، اور حکم اسی کو لوٹتا ہے یہ اس بات کی تاکید ہے کہ بعض اسماء مخصوص طور پر اللہ تعالیٰ کے لیے ہی لائق ہیں، اور ان کا استعمال انسانوں کے لیے جائز نہیں۔
"الحکمة" (حکمت) کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے، شیخ الازہر نے بتایا کہ اس کے 15 مختلف معانی ہو سکتے ہیں، جن میں نمایاں ہیں: عقل و دانش علم اور عمل کا امتزاج قرآن و سنت اور وہ جامع الفاظ جنہیں نبی ﷺ نے ادا فرمایا اور جن میں کثیر معانی سموئے گئے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے اُن افراد سے خبردار کیا جو حدیثِ نبوی کا انکار کرتے ہیں جنہیں "قرآنی" یا "منکرینِ حدیث" کہا جاتا ہے، اور کہا کہ حکمت کی ایک بڑی صورت ہی سنتِ رسول ﷺ ہے، اور جو اسے رد کرے وہ اصل حکمت کو رد کرتا ہے۔
اسم "الحکيم" کے لغوی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ یہ "فعيل" کے وزن پر ہے، جو "فاعل اور "مفعول" دونوں معنوں میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کائنات کے محکم نظام اور مخلوقات کی درست تخلیق میں ظاہر ہوتی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا: "اللہ نے حشرات کیوں پیدا کیے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم "الحکيم" کو "العليم" (جاننے والا) کے معنی میں لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مخلوق کی تفصیل اور اس کی افادیت کو اُس کے وجود سے پہلے جانتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ کی حکمت انسانی فہم کی حدوں سے ماورا ہے۔ ہر مخلوق اللہ کی مشیّت سے مخصوص انداز میں پیدا کی گئی ہے اور کائنات کے نظام میں اس کا اپنا ایک مقام ہے۔ حکمت کا مطلب صرف ظاہری خوبصورتی نہیں۔"

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025