شیخ الازہر کی وضاحت: انسان کو "حکیم" کہنا جائز ہے، بشرطیکہ اللہ کے ساتھ تشبیہ نہ دی جائے
شیخ الازہر: دینی گفتگو ہر کسی کے لیے نہیں ہے — دینی علم خاص مہارت اور ادب کا تقاضا کرتا ہے۔
امام احمد طیب نے کہا: "مسلم فلاسفہ کے ہاں جو عقلی فکر پایا جاتا ہے، اس کے مقابلے میں حسی علوم (تجرباتی سائنسز) کی حیثیت کم تر ہو جاتی ہے۔"
اللہ کی صفات ازلی ہیں، اُنہیں زمانی صفات کے ساتھ منسوب کرنے سے شیخ الازہر نے منع کیا ہے
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کے چیرمین نے پروگرام «الإمام الطيب» کی اکیسویں قسط میں اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام "الحکیم" پر گفتگو کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ اسم اللہ کے مخصوص اسماء میں سے ہے، اور جب اسے الٰہی حکمت کے معنی میں لیا جائے تو کسی مخلوق کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔ انہوں نے امام غزالی اور امام فخرالدین رازی جیسے اکابر مفسرین کے اقوال نقل کیے کہ:
"الحکیم وہ ہے جو سب سے اعلیٰ حقیقت کو اعلیٰ ترین علم کے ذریعے پہچانے"
اور شیخ الازہر نے«الإمام الطیب» پروگرام کی اکیسویں قسط میں گفتگو کے دوران — مزید کہا کہ انسانوں کے لیے "حکیم" کا لفظ استعمال کرنا جائز ہے جب اس سے مراد "سمجھدار یا عاقل" ہو، لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات سے تشبیہ دینے سے خبردار کیا، اور زور دے کر کہا: "اگر انسان کو اس نظر سے دیکھا جائے کہ وہ اللہ کی مطلق حکمت میں شریک ہے، تو یہ شرعاً ممنوع ہے۔"
اسی طرح انہوں نے "الہی ازلی علم" اور "انسانی اکتسابی معرفت" کے درمیان فرق کو واضح کیا، اور اشارہ کیا کہ معرفت کا مطلب ہے پہلے جہالت کا ہونا، جو کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ناممکن ہے۔ نیز انہوں نے مادی علوم اور ایمان کے باہمی تعلق کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا: "جدید علم تمہیں اللہ کی تلاش کی طرف خود بخود لے جاتا ہے۔"
اور بعض لوگوں کے اس قول کے جواب میں کہ "دین کوئی علم نہیں، اور دین پر گفتگو ہر ایک کے لیے جائز ہے، جبکہ علم میں گفتگو صرف ماہرین کا حق ہے"، امام اکبر نے کہا: مسلمانوں کے فلاسفہ بلکہ تمام الہٰی اور مثالی مفکرین کے عقلی فکر کے سامنے حسی علوم کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، اور واضح کیا کہ مادی دنیا اور الہی مثالی دنیا میں فرق یہ ہے کہ مادی دنیا آدھے راستے پر رک جاتی ہے۔ انہوں نے مثال کے طور پر پانی کے 100 درجے پر اُبلنے کا ذکر کیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ قدرتی قوانین ایک الہی ارادے کے تحت بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے حادث صفات کی نسبت سے خبردار کیا، اور زور دے کر کہا کہ اللہ کی صفات ازلی ہیں، اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ قدیم (اللہ) کسی عارضی صفت سے متصف ہو۔