فضیلت مآب امام اکبر شیخ الازہر پروفیسر احمد الطیب ازہر شریف میں زیر تعلیم بیرونی طلبہ اور طالبات سے دلچسپی لیتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کے حالات پر نظر رکھتے ہیں، چنانچہ اسی ضمن میں ایک مرتبہ انہیں معلوم ہوا کہ اصول الدین فیکلٹی کے شعبہ تفسیر کی تیسری جماعت میں زیر تعلیم انڈونیشی طالب علم محمد زمرونی کا ، کافی عرصے بیمار رہنے کے بعد الحسین یونیورسٹی ہسپتال میں انتقال ہو گیا اور ان کی بیوی کے پاس اتنی قدرت نہیں کہ لاش کی تدفین کے لئے اسے انڈونیشیا لے جائیں ، یہ سن کر امام اکبر نے فوراً حکم دیا کہ لاش کی منتقلی کا پورا خرچ ازہر برداشت کرے تاکہ اس کی تدفین اس کے ملک میں ہو سکے، اور یہ بھی ہدایت دی کہ اس کی بیوی اور بچوں کے سفر کا خرچ بھی ازہر برداشت کرے یہاںتک کہ وہ مرحوم کو ان کے ملک میں دفن کر کے پھر قاہرہ واپس آکر ازہر میں اپنی تعلیم مکمل کریں، اس کے علاوہ ان کو کچھ پیسے بھی دئے جائیں تاکہ زندگی کا بوجھ برداشت کرنے میں وہ ان کی مدد کریں۔
عموماً بیرونی طلبہ نے امام اکبر کے اس عظیم موقف کی بہت ستائش کی اور اس کے ساتھ بہت سرگرم ہوئے اور بالخصوص انڈونیشی طلبہ نے اس کو بہت سراہا اور فضیلت مآب امام اکبر پروفیسر احمد الطیب کو " ابو الوافدین" یعنی : " بابائے بیرونی طلبہ" کا لقب دیا۔