ایک مرتبہ فضیلت مآب امام اکبر شیخ الازہر پروفیسر احمد الطیب نے کازاخستان ،اوزبکستان اور ایٹلی کا دورہ کیا جس کا مقصد پوری دنیا میں سلامتی اور بات چیت کے مزید پل تعمیر کرنا اور اسلام ، اس کی روادارانہ تعلیمات اور اس کی اعلی شریعت کی حقیقت واضح کرنے میں ازہر کے عالمی پیغام کی یقین دہانی کرانا تھا۔
اس دورے کے بعد جب امام اکبر وطن واپس آرہے تھے تو راستے میں سنا کہ ازہر یونیورسٹی کی گرلز تجارت فیکلٹی کی تفہنا الاشراف شاخ میں زیر تعلیم طالبہ ہاجر سید محمد ایک ٹرین حادثے کا شکار ہوگئی ہے۔ جس میں وہ اپنی بائیں ٹانگ سے محروم ہو گئی ہے اور اس کا داہاں بیز شدید زخمی ہواہے، اور یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب وہ دقہلیۃ گورنریٹ میں واقع اپنے کالج جا رہی تھی ، یہ خبر سن کر شیخ الازہر کو بہت غم ہوا، اور انہوں نے اپنے معاونین سے کہا کہ اس طالبہ سے میری بات کراو، پھر امام اکبر نے زخمی طالبہ اور اس کی والدہ سے بات کی، اور اس کی خیریت معلوم کی، اور کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، علاج کا پورا خرچ ازہر برداشت کرے گا یہانتک کہ وہ شفایاب ہوجائے، پھر موصوف نےاس کی کٹی ہوئی ٹانگ کے متبادل کے طور پر اسے مصنوعی آلہ دلوایا تاکہ وہ کسی مشقت کے بغیر اپنی زندگی مکمل کر سکے، اور موصوف نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ علاج ومعالجے کے دوران اسے جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی اس میں وہ اس کے ساتھ ہیں یہانتک کہ وہ شفایاب ہوکر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے واپس آجائے۔
یقین جانیے کہ طالبہ اور اس کے خاندان کی نفسیاتی حالت پر اس ٹیلفونی رابطے کا بڑا مثبت اثر پڑا۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ امام اکبر از خود ٹیلفون کر کے ان کی بیٹی کی خیریت معلوم کریں گے، اور اس کی شفایابی تک اس کے علاج و معالجے کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور کردیں گے، اس طرح وہ لوگ جو اپنی بیٹی کے حادثے اور اس کے علاج و معالجے کی راہ میں آنے والی دشواریوں کو سوچ کر پریشان اور غم زدہ تھے اب وہ خوشی ومسرت محسوس کرنے لگے ۔
بہت سے طلبہ اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگ اس اعلی انسانی موقف سے بہت متاثر ہوئے ، اور انہوں نے امام اکبر، ازہر یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات کی خبرین معلوم کرتے رہنے کی ان کی خواہش ورغبت ، اور ان کے لئے علاج ومعالجے کے بہترین اسباب و وسائل فراہم کرنے کی بہت ستائش کی۔