مناصرة حقوق المرأة.jpeg

عورت کے حقوق کی نصرت و حمایت

امام اکبر جب سے شیخ الازہر کے عہدے پر فائز ہوئے اسی وقت سے انہوں نے عورت کے مسائل سے بہت زیادہ دلچسپی لی، اور پسماندگی، امتیازی سلوک اور تشدد کی ان تمام شکلوں کی مذمت کی جن سے پوری دنیا میں عورت دوچار ہے، امام اکبر نے اپنی تقریروں، مقالات اور ٹی وی انٹرویوز کا بڑا حصہ عورت کے حقوق اور اس سے متعلق دیگر تمام مسائل کی طرف توجہ دلانے کے لئے مخصوص کیا، موصوف نے چھوٹی بچیوں کے حقوق کا دفاع کیا اور کم عمر بچیوں کی شادی مسترد کی، کیونکہ اس میں لڑکی کو نفسیاتی عقلی اور جسمانی اعتبار سے تکلیف ہوتی ہے، اور اعلان کیا کہ ازہر اس قانون کی تائید کرتا ہے جو لڑکیوں کی شادی کی عمر اٹھارہ سال متعین کر رہا ہے۔ 
امام اکبر نے اپنے بچوں کی نگہداشت کرنے اور ان سے محروم نہ رہنے میں طلاق شدہ ماں کے حق کا بھی دفاع کیا، اور پندرہ سال تک پروش کی عمر متعین کرنے کی تائید کی۔ 
اسی طرح اسلامی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک سے زائد  غیر منظم شادی اور غیر منظم طلاق پر کنٹرول کرنے کی ایپل کی، اور تعلیمات جاری کیں کہ نظر رکھنے اور الیکٹرانک فتوی کے عالمی ازہر سنٹر میں عورتوں سے متعلق فتاوی کا ایک مخصوص شعبہ قائم کیا جائے جس میں عورتوں کے سوال کے جواب دینے کے لئے فتوی میں اختصاص رکھنے والی خواتین مفتی کا کام کریں، 
امام اکبر نے صرف شرعی پہلو سے ہی عورت کے مسائل کی حمایت نہیں کی بلکہ دیگر پہلوؤں سے بھی ان کا تعاون کیا، چنانچہ ازہر شریف نے عورت کی قومی کونسل کے ساتھ ہم آہنگی سے سوشل میڈیا کے ویب سائٹس پر متعدد الکٹرانک مہمات شروع کئے، اور سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں، انسٹی ٹیوٹس اور یونیورسٹیز میں ایسے سمینارز منعقد کئے گئے اور لکچر دئے گئے جن کا مقصد عورت کے حقوق کے بارے میں آگہی پیدا کرنا تھا۔ 
اسی طرح موصوف نے مصری گورنریٹ قلیوبیہ کے شہر خانکہ میں بارہ ایکڑ زمین کے رقبے پر قائم ازہر یونیورسٹی کی ایک شاخ کی ایک عمارت کو مخصوص کیا تاکہ وہاں ازہر یونیورسٹی سے ملحق لڑکیوں کے لئے فزیکل ایجوکیشن کی پہلی فیکلٹی قائم کی جائے، اس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ موصوف ازہر میں زیر تعلیم بچیوں سے دلچسپی لے رہے ہیں، اور لڑکیوں کو ان کے فطری حقوق سے محروم کرنے والی فرسودہ عادات و تقالید کا مقابلہ کرنے کے خواہاں ہیں، اور اس فیکلٹی میں تعلیمی سال 2017 – 2018 عیسوی سے تعلیم بھی شروع ہو چکی ہے۔ 
امام اکبر نے زکوة وصدقات کے مصری گھر کی نگراں کونسل کے صدر ہونے کی حیثیت سے قرض دار خواتین کے قرضوں کی ادائیگی کو زکوة وصدقات گھر کی ایک اہم ترجیح مقرر کی، اور تئیس دسمبر 2014 عیسوی کو وزیر داخلہ اور وزیر انصاف سے اپیل کی کہ جن لوگوں کو قرضے ادا نہ کرنے کی وجہ سے سزائیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان کی دیٹابیس زکوٰۃ گھر کو دے دئے جائیں تاکہ گھر کی نگراں کونسل ان کے قرضوں کی ادائیگی کی کوئی مناسب شکل تلاش کر سکے۔
اور مصری خاندانوں کے اندر استحکام پیدا کرنے ، اور خاندانی انتشار اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرحوں کو روکنے کے لئے ازہر شریف نے ستمبر 2018 عیسوی میں " اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو" کی مہم شروع کی، تاکہ طلاق کے اسباب اور اس کے خطرات سے متعلق آگہی پیدا کی جائے اور ایک خوش حال اور مربوط خاندان کی تعمیر کی صحیح بنیادوں کی وضاحت کی جائے۔ 
اسی طرح ازہر شریف نے سولہ اپریل 2018 عیسوی کے دن " شیرازہ بندی" کی یونٹ قائم کی ، تاکہ مصری خاندانوں کی شیرازہ بندی کی جائے اور آپس میں جھگڑنے والوں کے درمیان صلح کرائی جائے، اور ازہر شریف کے فیملی اور کمیونٹی پروگرام کی طرف سے شروع کئے جانے والے سمینارز اور کورسیز کے ذریعے شادی کا ارادہ رکھنے والوں کے اندر آگہی پیدا کی جائے۔ 
امام اکبر نے عورت کے حقوق کی حفاظت کی اہمیت پر زور دیا، جن میں اس کے مالی حقوق سرفہرست ہیں، موصوف نے میراث میں عورت کے حق کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت کی طرف توجہ مبذول کرائی، چنانچہ الکٹرانک فتوی کے عالمی ازہر سنٹر کے ساتھ تعاون سے ازہر شریف کے اطلاعاتی سنٹر نے میراث میں عورت کے حق کی آگہی پیدا کرنے کے لئے " مقرر حصے" کے عنوان سے ایک مہم شروع کی تاکہ میراث میں عورت کے حق ، میراث میں موجود اس کے شرعی حق سے اسے محروم رکھنے کی سزا اور خاندان اور معاشرے پر اس کے پڑنے والے اثرات کے بارے میں آگہی پیدا کی جائے۔ 
امام اکبر نے عورت کی عزت ، اس کی آزادی اور اس کے حقوق کی نصرت کرتے ہوئے، عورت کے خلاف پائی جانے والی ایک خطرناک صورتحال " جنسی چھیڑ چھاڑ" کے تئیں ایک تاریخی اور فیصلہ کن موقف اختیار کیا، چنانچہ موصوف نے جنسی چھیڑ چھاڑ کو بلا قید و بند جرم قرار دیا خواہ وہ اشارے سے ہو ، یا لفظ سے ہو یا عمل سے ہو، اور اسے ایسا عمل شمار کیا جس کا کرنے والا شرعاً گہنگار ہوگا۔ 
اور عورت کے سلوک وکردار یا اس کے لباس کو اس کا وجہ جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ 
امام اکبر نے صرف اس شرمناک عمل کی مذمت کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان غلط افکار اور کھوکھلے وجہ جواز کا سامنا بھی کیا جن پر اعتماد کرتے ہوئے کمزور نفس والے لوگ گناہ کے ایک حصہ کی ذمہ دار مظلوم پر ڈال کر اپنے کاموں کو صحیح قرار دیتے ہیں، بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس منحرف سلوک کی بنیادی محرک وہی ہے، اور انسانی حقوق سے دلچسپی لینے والے مختلف لوکل اور بین الاقوامی اداروں اور اطراف نے اس صورتحال کے تئیں ازہر شریف کے موقف کو سراہا۔ 
اور مصری خاتون کو قادر بنانے ، اس کی مدد کرنے، اس کے لئے کام کے حالات سازگار بنانے اور اس کے گھریلو حالات کا پاس و لحاظ رکھنے کے سلسلے میں امام اکبر کی شدید خواہش و رغبت کا ایک مظہر یہ ہے کہ انہوں نے 1918 عیسوی کی قرار داد نمبر ( 32 ) جاری کی، جو وضاحت کرتی ہے کہ عورتوں کے کام کی جگہوں کو ان کی خواہش کے بغیر نہ بدلا جائے، اور اگر بدلنا ہی ہو تو اس کی وجوہات بتائی جائیں اور شیخ الازہر سے ذاتی طور پر اس کی منظوری لی جائے، یہ قرار داد اس لئے پاس کی گئی کہ ازہر میں کام کرنے والی خواتین کا بوجھ ہلکا کیا جائے، اور بہت سے علاقوں میں ان کے کام کی جگہوں سے دور دراز جگہوں کے لئے سفر و اسفار کی پریشانیاں کم کی جائے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025