بیت المقدس سے متعلق الازہر الشريف كا بیان
24 ذي الحجہ 1433ھ بمطابق 20 نومبر 2011ء
دستاويز كا متن
ایسے وقت میں جبکہ شہر بیت المقدس کو صہیونی اور یہودیت رنگ میں رنگنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں، حرم قدسی میں اسلامی مقدسات پر صہیونی زیادتیاں بڑھ رہی ہیں، خاص طور پر مسجد اقصى پر جو بيت المقدس كے لئے دل كى حيثيت ركهتا ہے ، اور حرم شریف کے آثار مٹانے میں صہیونی پروجیکٹس پے درپے سامنے آرہے ہیں، اور اس کا آخری پروجیکٹ قدس ٹرین پروجیکٹ، ازهر شریف، جو عالم اسلام کا قبلہ علمی ہے، اور وہ امت کی سرحدوں پر خیمہ زن ہے اور اس کے عادلانہ مسائل کا دفاع کرتا ہے خواہ وہ قومی ہو یا اسلامی، درج ذيل اعلان كرتا ہے:
پہلا: ساٹھ صدیوں سے بھی زیادہ سے قدس عربی ہے، بایں طور کہ يبوسى عربوں نے چار ہزار سال قبل مسيح میں تعمیر کیا تھا، یعنی ابو الانبیاء حضرت ابراہیم ×کے زمانے سے اکیس صدی قبل اور یہودیت کے ظہور سے پہلے جو موسی ×کی شریعت ہے یعنی 27 صدی قبل۔
دوسرا: یہ کہ موسی ×کی شریعت اور ان کی تورات جو مصر میں ظاہر ہوا وہ ہیروغلیفی زبان بولتے تھے، بنی اسرائیل کے جنگجو بن کر غزہ میں داخل ہونے سے پہلے، اور عبرانى زبان کے ظاہر ہونے سے سو سال پہلے، اسی وجہ سے نہ تو یہودیت کا اور نہ ہی عبرانی کا قدس اور فلسطین سے کوئی تعلق ہے،
تیسرا: شہر قدس میں عبرانی وجود نے اس کے بعد 415 سال سے زیادہ تجاوز نہیں کیا - حضرت داؤد اور سلیمان إ کے زمانے میں جو زمانہ دس صدی قبل عیسوی کا ہے، اور وہ ایک عارضی اور انتقالی وجود تھا، بعد اس کے کہ قدس کا قیام عمل میں آیا اور اس پر تیس صدی گذر چکے تھے۔
چوتھا: کیونکہ شہر قدس کی تاریخ نے بہت سے جنگجو اور جنگ کا مشاہدہ کیا ہے اس لئے تاریخ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہمیشہ تمام جنگجوؤں نے اس شہر پر اپنا قبضہ جمانے اور اس کو اپنے طرف منسوب کرنے کی کوشس کی ہے، ایسا بابلیوں، اغریقی، رومیوں اور اسی طرح صلیبیوں نے اور اب صھاینہ انہی جنگجوؤں کے راستے پر چلتے ہوئے اس کو یہودیت کے رنگ میں رنگنے، اس پر قبضہ کرنے اور اس کے عربی وجود کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہيں ۔
جنگجوؤں نے ایسا کیا، لیکن اسلام واحد ایسا مذہب ہے جس نے تمام شرائع اور ملل کا اعتراف کیا اور تمام مقدسات کا احترام کیا، اور واحد وہ ہے جس نے اس شہر کی قدسیت کی تاکید کی اور اس کو تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اس کی اشاعت کی، اور عربی حکومت تمام کے مصالح کی ضامن ہے، اور قدس عربی حکومت کے زیر نگرانی اللہ کا شہر ہے- اللہ کے تمام مخلوقات کے سامنے اسکے دروازے کھلے ہیں۔
پانچواں : قدس پر قبضہ جمانا اور اسکو یہودیت کے رنگ میں رنگنا موجودہ حملے میں وہ ان تمام بین الاقوامی معاہدوں کی صریح خلاف ورزی ہے جو زمین کی طبیعت، اس کے باشندوں اور مقبوضہ جگہو ں میں تبدیلی پیدا کی جائے، اسی وجہ سے قدس کو یہودیت کے رنگ میں رنگنا غیر قانونی ہے، چہ جائے کہ ان تاریخی حقائق سے ٹکرانا جو قدس کے عربی ہونے پر شاہد ہے اس وقت سے جب سے يبوسى عربوں نے ساٹھ صدی پہلے اس کی تعمیر كى ۔
چھٹا : ازهر شریف، اور اس کے پیچھے مشرق و مغرب کے تمام مسلمان ہیں، ان سكيموں کو رد کرتی ہے، اور صیہونی حکومت اور ان طاقتوں کو جو اس کے پس پشت ہے، ان انجام سے خبردار كرتى ہے جو نہ صرف پورے علاقے کے امن وسلامتی ہی کے لیے خطرہ بلکہ پوری دنیا کے امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہے، اور ہم صہیونیوں اور اس کے پس پشت لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ صلیبیوں نے اس سے زیادہ وسیع رقبے میں اور قدس ان کے قبضے میں اس سے کئی سال گنا زیادہ ان کے زیر نگیں رہا، لیکن اس کے باوجود بھی تاریخ کی سنت رہی ہے کہ وہ پیچھے نہیں مڑتی- اس نے سامراج کو نیست و نابود کردیا اور ظالموں کے آثار کو دور کردیا، اور صہیونی جو مغربی شہنشاہِی ظالم حکومتوں کے سہارے قدس شریف کو یہودیت کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں، وہ خود یہودیوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، اور امت اسلامیہ کے ریڈ لائن کو کراس کر رہے ہیں، جنہیں تعدا دایک چوتھائی انسانیت ہے، اور وہ امت جلد ہی اپنے حقوق چھیننے پر قادر ہے۔
بلا شبہ قدس صرف مقبوضہ زمین نہیں بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں وہ حرم اسلامی اور مقدس مسیحی ہے، اور اس کا مسئلہ صرف فلسطینی وطنی مسئلہ نہیں یا قومی عربی مسئلہ ہے بلکہ وہ ان تمام سے بڑھ کر ایک اسلامی اور عقیدے کا مسئلہ ہے، وہ اس کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کر رہے ہیں،
اور تمام اصحاب مقدسات کے نزدیک اس کی حوصلہ افزائى كرنا ضروری ہے، تاکہ اس کو اسرائیلی قبضے اور صیہونی یہودیت سے چھٹکارا دلایا جاسکے۔
ازہر شریف دنیا کے تمام آزاد لوگ سے اپیل کرتا ہے کہ وہ قدس اور فلسطین کی آزادی کے لیے عربی حق کی مدد کریں، اسی طرح یہود کے عقلمند افراد کو دعوت ديتى ہے کہ وہ تاریخ سے عبرت حاصل کریں، جو ان کے مظلومیت پر شاھد ہے وہ جہاں بھی گئے، سوائے اسلامی ملکوں اور مسلمانوں کی تہذیب کے علاوہ۔
اور ازهر ایک بار پھر اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ قدس کو یہودیت کے رنگ میں رنگنا اور اس کے حرم شریف پر زیادتی کرنا ریڈ لائن ہے اور یہ مقدمہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین سے صہیونیوں کا پتہ صاف ہوجائے گا۔
اور اس سے پہلے صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کرانے کا طریقہ متعین کردیا ہے، جب انہوں نے صلیبی بادشاہ ریچرڈ کو لکھا "اور اس سے کہا کہ تم یہ مت سوچو کہ ہم بیت المقدس سے دستبردار ہوجائیں گے، ایک امت مسلمہ کے طور پر، اور اللہ تمہیں اس مقدس زمین میں ايك اینٹ بھی تعمیر کرنے نہیں دیگا جب تک جہاد جاری ہے"
اور تاریخ نے ناصر صلاح الدین کی بات کو سچ کر دکھایا اور ہر عقلمند کو معلوم ہے کہ تاریخ کے کچھ سنت الہی ہے جس کو بدلا نہیں جا سکتا ہے، وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﱠ ( سورۂ یوسف : 21) " اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے ليكن اكثر لوگ بے علم ہوتے ہيں۔
" وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ "(سورۂ الشعراء: 227) "جنہوں نے ظلم كيا ہے وه بھى ابھى جان ليں گے كہ كس كروٹ الٹتے ہيں"۔
یہ تحریر دفتر شيخ الازہر میں 24 ذی الحجہ 1432هجری بمطابق 20 نومبر 2011 میں درج کی گئی ۔
شیخ ازہر:
پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب