الازہر الشريف كا بين الاقوامي اعلان امن وامان كے لئے
8 شعبان 1438ھ بمطابق 28 ابريل 2017 ء
اعلان كا متن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بطریق اعظم فرانسس – ویٹیکن کے بطریق ، اور قابل قدر مہمانان گرامی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں ازہر شریف اور مسلم دانشور کونسل کی طرف سے سلام پیش کرتا ہوں – اور اس دعوت کو قبول کرنے پر دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں ، ہم آپ کے ازہر شریف اور مصر کے اس دورے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔یہ دورہ جو ازہر کی آواز پر لبيك كهنے اور ہم سب کے کندھوں پر عائد ہونے والی تاریخی ذمہ داری کو نبھانے ، اور تباہ ہونے جانے والی امن و سلامتی کے لئے خدائی مذاہب کے قائدین، اس کے علماء اور شخصیات کے ساتھ شرکت کرنے کیلئے منعقد کیا گیاہے، وہ امن و سلامتی جس کو قومیں ، ممالک ، مصیبت زدہ اور بیمار لوگ، صحراوں میں بھٹکتے ہوئے ، اپنے وطنوں سے فرار دوسرے دور دراز وطنوں کی طرف منتقل ہونے والے لوگ تلاش کر رہے ہیں اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ اس وطن تک پہنچ سکیں گے یا راستے ہی میں موت ، ہلاکت اور تباہی ان کے درمیان حائل ہو جائے گی یا ان کا انجام سمندروں کے ساحلوں پر بکھرئی هوئى لاشوں كى شكل ميں سامنے آئے گا۔ یہ صورت حال انتہائی پریشان کن انسانی المیہ کی صورت اختیار کرگئى ہے ، اگر ہم کہیں کہ تاریخ میں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی تو حقیقت سے تجاوز نہیں ہو گا ۔
دانشمند اور زندہ ضمیر کے حامل حضرات اس المیہ کے پیچھے حقیقی سبب کو تلاش کر رہے ہیں جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے اور جس کی بھاری قیمت ہم اپنی جانوں اور وطنوں سے ادا کررہے ہیں ، انہیں کوئی ایک بھی منطقی وجہ نہیں مل رہی جو ان حادثات کا جواز پیش کرے جنہوں نے غریبوں ، یتیموں ، بیواؤں اور عمر رسیدہ لوگوں کے گھروں میں اپنے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں ، البتہ ایک وجہ کسی حد تک معقول دکھائی دیتی ہے ، اور وہ ہتھیاروں کی تجارت ، اس کی مارکیٹنگ کرنا ، ایک ہی وطن کے فرزندوں کے درمیان مذہبی اختلافات ، گروہی ، نسلی امتیازات کو ہوا دینا ، دینی فتنہ و فساد کو بھڑکانے اور کشیدگی پیدا کرنے کے لئے موچے بنانے ، عالمی جذباتی فیصلوں اور سودی کاروبار سے گراں فائدہ حاصل کرنا ہے تاکہ ایک پل ان کی زندگی ایک ناقابل برداشت جھنم میں تبدیل ہو جائے۔
عجب ستم ظریفی ہے کہ یہ سخت بحران اکیسویں صدی میں رونما ہو رہا ہے جو کہ تہذیب ، ترقی ، انسانی حقوق کی صدی ، بہت بڑے علمی و فنی عروج ، معرفت و شعور کی بلندی اور عالمی امن و سلامتی کی حفاظت کا اہتمام کرنے والی سلامتی کونسلوں کا زمانہ ہے ، جن کے چارٹرز عالمی تعلقات میں طاقت کو استعمال کرنے یا صرف اس کے ذریعے دھمکی دینے کو جرم قرار دیتے ہیں ، بلکہ یہ انسانی فلسفوں اور مذاہب ، مطلق مساوات کے لئے آواز اٹھانے ، جدید لا دینیت اور جدت کے علاوہ ہمارے عصر حاضر کو امتیازی حیثیت دینے والی دوسری معاشرتی اور فلسفی کامیابیوں کا زمانہ ہے ۔
اس ستم ظریفی میں بنیادی سوال یہ ہے کہ آج ان تمام کامیابیوں کے باوجود کس طرح عالمی سلامتی ایک گمشدہ باغیچہ بن گئی ہے ؟ کس طرح انسانی حقوق کے زمانے نے ان حملہ آور کاروائیوں کا مشاھدہ کیا جن کا زمانے نے اس سے پہلے مشاھدہ نہیں کیا ؟ میرا یقین ہے کہ آپ حضرات بھی اس بات میں مجھ سے اتفاق کريں گے کہ اس کا جواب جدید تہذیبوں کا خدائی مذاہب کو نظر انداز کرنا ہے، کیونکہ یہی مذاہب ہی تو ہیں جو مقاصد اور مصلحتوں کے تبدیل ہونے کے ساتھ تبدیل نہ ہونے والی اور خواہشات اور شهوت کے پیچھے نہ چلنے والی اخلاقی اقدار کو استوار کرتے ہیں ، ان اقدار میں سرفہرست لوگوں کے درمیان بھائی چارے ، باہمی پہچان اور باہمی رحمدلی کی قدریں ہیں اور لوگوں کو اس بات کی یاد دہانی کروانی ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ، اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اس کے کنبہ کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے ، یہ اس لئے ہے تاکہ دنیا وحشی درندوں کے جنگل کی شکل اختیار نہ کر جائے جو ایک دوسرے کے گوشت پر پلتے ہیں ۔
مشرق و مغرب میں مفکرين علماء اس امر کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ اس صورت حال کا حل صرف اور صرف آسمانی پیغام سے آگاہی کو واپس لانے اور جدید منحرف خطاب کو ایسے گہرے تنقیدی مطالعہ کے تابع کرنے میں ہے جو انسانی عقل کو اسے پہنچنے والے تجرباتى فلسفہ کی کمی اور کھوکھلا پن ، مطلق العنان انفرادی عقل کی سرکشی اور اس کے لوگوں کی زندگی پر مسلط ہونے سے نجات دلائے ، اور یہ کہ جدت کے بعد کا مرحلہ خیالی و وجدانی فلسفوں کے ساتھ محض ان مذاہب کی تزیین و مرمت تک محدود نه رهے ۔۔ فلاسفہ اور مومنوں کے نزدیک اس ساری صورتحال کو بھائی چارے اور باہمی رحمدلی کے اسلوب میں واپس لانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ( ) یہ اسلوب فلسفی مذاہب ، جامع علمی اورعملی ڈھانچھوں میں زندگی ڈال دینے والا تریاق ثابت ہو گا ، اور یہ تریاق صرف اور صرف دین کےدوا خانہ سے ہی دستیاب ہو گا ۔
میرا خيال ہے کہ اس وقت اس بات کے لے حالات سازگار هيں کہ تمام مذاہب سلامتی ، عدل و انصاف ، مساوات اور ہر انسان کے احترام کی اقدار کو زندہ کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں، خواہ اس انسان کا جو بھی مذہب ، رنگ ، نسل اور زبان ہو ، صبح و شام مسلمانوں کے تلاوت کئے جانے والے قرآن کریم میں ہم پڑھتے ہیں کہ ﱡﱾ ﱿ ﲀ ﲁ ﲂ ﲃ ﲄ ﲅ ﲆ ﲇ ﲈ ﲉ ﲊ ﲋ ﲌ ﲍ ﲎ ﲏﱠ ( یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ) [ سورۀ بنى اسرائيل : آیت نمبر 70 ]۔
لیکن اس سے قبل ہم پر لازم ہے کہ ہم ان مذاہب کے ساتھ مل جانے والے غلط مفاھیم ، جھوٹے عمل اور اس جھوٹی دینداری سے ان کو پاک و صاف کریں جو لڑائی کو ہوا دیتی ہے ، نفرت پیدا کرتی ہے اور انتہاء پسندی پر ابھارتی ہے ۔۔ اور یہ کہ ہم کسی بھی دین کے چند فضول پیروکاروں کے جرائم کی وجہ سے اس دین کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ اسلام اس وجہ سے دہشت گردی کا دین نہیں ہے کہ اس کے پیروکاروں کا ایک گروہ اس کی بعض نصوص کى غلط اور جاہلانہ تاويلوں بنا پر خون بہانے لگا ، لوگوں كو قتل کرنے لگا ، زمین میں فساد برپا کرنے لگے اور اسے ایسے ذرائع بھی مل گئے جو اس کی مال ، ہتھیار اور ٹرینگ سے پشت پنائی کرنے لگے ، عیسائیت اس وجہ سے دہشت گردی کا دین نہیں ہے کہ اس پر ایمان رکھنے والے ایک گروہ نے صلیب کو اٹھایا اور مرد و عورت ، بچے ، جنگجو ، اور قیدی میں تمییز کئے بغیر لوگوں کو قتل کرنے لگا ، اور یہودیت زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے موسی علیہ السلام – جبکہ وہ اس سے پاک ہيں- کی تعلیمات کو اپنے فائدہ کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے دہشت گردی کا دین نہیں ہے جس میں مغلوب فلسطینى قوم کے کروڑوں حقدار لوگ قربان ہو گئے ہیں ، بلکہ یورپی تہذیب ان دو عالمی جنگوں کی وجہ سے دہشت گرد تہذیب نہیں ہے جو یورپ کے وسط میں بھڑکیں اور اس میں سات کروڑ سے زیادہ لوگ قربان ہوئے ، اور نہ ہی امریکی تہذیب دہشت گرد تہذیب ہے كيونكه اس کے ایٹم بموں نے ہیروشیما اور ناگا ساکی ميں انسانوں اور جمادات کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا ، اگر اس دروازے کو کھول دیا گیا جیساکہ آج اسلام کے خلاف کھول دیا گیا ہے تو ہرگز کوئی دین ، کوئی نظام ، کوئی تہذیب ، بلکہ تاریخ بھی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی تہمت سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔
جناب عالی محترم بطریق! ہم اسلام سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی تہمت دور کرنے اور حق کو واضح کرنے والے آپ کے سرکاری بیانات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، ہم آپ میں اور مشرق ومغرب کے گرجاگھروں کے ذمہ داران کے اس جھڑمٹ میں مختلف عقائد ، مذاہب ، ان کے شعائر کا احترام کرنے ، ان کا غلط استعمال کرنے اور مومنین کے درمیان لڑائی بھڑکانے میں اس غلط استعمال سے فائدہ اٹھانے والے کا سامنا کرنے كى شديد خواهش ورغبت محسوس کر رہے ہیں ۔
بیشک ازہر نے ہمارے درمیان مشترک شعبوں میں مل کر کام کرنے ، دوسروں کے عقائد کا احترام کرنے ، ان کو نہ چھيڑنے ، مکالمہ کو زندہ كرنےاور بقائے باہم کو پختہ کرنے کی دعوت دینے کے لئے باہمی تعاون كى کوششیں کی تھی اور ابھی تک کر رہا ہے ، یہ شعبے بہت زیادہ ہیں اسى طرح ہم مختلف مذاہب کے راہنماؤں کو پیش آنے والے مشترکہ چیلنجز بھی بہت زیادہ ہیں ۔
ہمیں بغیر کسی تقسیم ، تمییز اور فرق کے زمین كے مصیبت زده لوگوں ، قیدیوں ، خوف زده افراد ، بھوکوں اور کمزوروں کے لئے مل کر کوشش کرنی چاہیئے ۔
ہمیں خاندانی ادارہ کو اس کی گھات لگائے ہوئی اخلاقی بے راہ روی ، علمی تحقیق کی سرکشی ، بعض سکالرز کے انحرافات اور کمی عقلی سے بچانے ، اور معاشر ے کو فتنہ و فساد اور فتنہ و فساد کرنے والوں سے بچانے کے لئے مل کر کام کرنا چاہیئے ۔
ہمیں دوسروں پر تسلط قائم کرنے والی سیاستوں ، تاریخ کی انتہاء اور تہذیبوں کے ٹکراؤ والے نظریات ، لادینیت کی دعوت ، دوہرے پن والی عقل ، جدید لادینیت ، اور ہر جگہ ان تمام سے جنم لینے والی مشکلات اور المیوں کے سامنے مل کر کھڑا ھونا چاہیئے۔
اپنی گفتگو کے اختتام میں انتهائى مهربان اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس ملاقات کو ایک ايسا حقیقی اقدام بنائے جس میں باہمی رہن سہن ، بھائی چارے ، اور سلامتی کے کلچر کو عام کرنے کے لئے ہم سب ایک دوسرے كا تعاون کریں ۔
آپ سب کا شکریہ ۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ !
احمد الطیب
شيخ الازهر
مقامِ تحریر: دفتر شيخ الازہر ، 2 شعبان 1438 ھجری، موافق: 28 اپریل 2017ء