شیخ الازہر: انسانیت قرآن کریم اور نازل شدہ کتابوں کی رہنمائی کی اس طرح محتاج نہیں تھی جس طرح آج ہے۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

شیخ الازہر نے اقوام کے درمیان تعلقات کو تہذیبی مکالمے سے جنگوں اور مسلح تنازعات میں تبدیل کرنے کی مذمت کی ہے۔
شیخ الازہر: قابض فوج نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے ایک ایسی بے دفاع قوم کا مقابلہ کیا ہے جو نہیں جانتے کہ قتل یا لڑائی کیا ہے۔
شیخ الازہر نے غزہ کے معصوم، بے دفاع لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے "نسل کشی اور اجتماعی ہولوکاسٹ" قرار دیا ہے۔
شیخ الازہر: بین الاقوامی اداروں کو "نااہلیت اور مکمل ہزیمت  کا سامنا کرنا پڑا جس نے انہیں اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے سے روک دیا۔
شیخ الازہر: جو کچھ اہل فلسطین کے ساتھ ہو رہا ہے تاریخ اسے اپنے سیاہ  صفحات میں خون اور آنسوؤں کے ساتھ  ناانصافی اور تاریکی کے طور پر لکھے گی۔
 
 
امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف ، نے صدر جمہوریہ عبدالفتاح سیسی، مصر کے معزز لوگوں اور عرب اور عالم اسلام کو لیلۃ القدر کی مناسبت سے انتہائی خوبصورت مبارکباد پیش کی ہے اور نیک تمناؤں  کا اظہار کیا ہے، (لیلۃ القدر ) وہ رات جس میں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر قرآن کا نزول شروع ہوا، ایک ایسا نور ہے جس سے اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ اور انہیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
شیخ  الازہر نے بروز ہفتہ لیلۃ القدر کی تقریب میں صدر جمہوریہ عبدالفتاح سیسی کی موجودگی میں اپنے خطاب کے دوران کہا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو یوں بیان فرمایا: کہ وہ " کتاب حکمت ہے" اور یہ ہے" کتاب مبین" ہے، اور یہ "حق" ہے، اور اس میں "ہر چیز کا بیان ہے، اور یہ "ہدایت اور رحمت ہے، اور یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں " میں کوئی شک نہیں۔" اور یہ وہ کتاب ہے: کہ " اس میں سامنے  یا پیچھے سے باطل کی آمیزش نہیں آتی" (فصلت: 42)۔ خدا نے اسے "لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے حق اور میزان کے ساتھ" اتارا۔ اسی طرح دیگر صفات، جمال ، جلال اور کمال جنہوں نے اس عظیم کتاب کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور انہیں اس کے الفاظ کی تلاوت اور اس کے معانی پر غور کرنے کی ترغیب دی۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ جب کہ متکلم خود خدا ہے، "اور اللہ سے زیادہ بات میں سچا کون ہو سکتا ہے" (نساء: 87)، "اور اللہ سے زیادہ بات میں سچا کون ہو سکتا ہے؟" اور اس کی طرف سے مبلغ افصح اور ابلغ ہے اور اس کے کلام کے مقصد کو سب سے زیادہ جاننے والا اور اس کی فصاحت وبلاغت کے اسرار سے واقف ہے۔
آپ نے اس بات پر زور دیا کہ ہم صبح و شام جن سخت واقعات سے گزر رہے ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بغیر کسی شک و شبہ کے کہ انسانیت کو اپنے کسی دور میں بھی قرآن کریم کی رہنمائی اور اس جیسی دوسروں کتب  کی رہنمائی کی اس قدر ضرورت نہیں رہی جتنی آج ہے، پس واضح ہو گیا ہے کہ ہماری عصری دنیا عقلی اور دانشمندانہ قیادت سے محروم ہو چکی ہے، اور بغیر کسی وجہ، حکمت یا بین الاقوامی قانون کے انتشار میں ڈوب رہی ہے، اور بغیر کسی وقفے کے  ایک ایسی پاتال کی طرف دوڑ رہی ہے جس کے بارے میں تاریخ پہلے کبھی نہیں جانتی تھی۔
شیخ الازہر نے اقوام اور عوام کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط تہذیبی مکالمے کے تعلقات کے بارے میں بات کی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم نے ایک عجیب تیزی سے تصادم اور تنازعات کے تعلقات کی راہ اختیار کر لی ہے۔ یہ مخدوش صورت حال تیزی سے مسلح تصادم کے تعلقات میں بدل گئی، جو بالآخر جنگوں اور مسلح تصادم کی تاریخ میں ایک بہت ہی عجیب و غریب تصویر میں تبدیل ہو گئی۔ اس تصویر کے ہیرو سیاسی اور عسکری رہنما ہیں جن کے دل سخت ہیں جن سے خدا نے رحمت  کے تمام معانی کو دور کر دیا ہے۔ وہ قتل اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ایک فوج کی قیادت کرتے ہیں جس ہتھیار کو یورپی اور امریکی فیکٹریاں نکال رہی ہیں، اور وہ ان کے ساتھ ایک بے دفاع شہری آبادی کا مقابلہ کرتے ہیں جو نہیں جانتی کہ قتل یا لڑائی کیا ہے۔  اور نہ ہی اس نے پہلے اس نے خون بہایا ہے۔ نہ ہی سڑکوں پر پڑی بچوں، عورتوں، مردوں اور بیماروں کی لاشیں نظر آتی ہیں یا گلیوں اور گلیوں میں منہدم عمارتوں کے ملبے کے نیچے چھپی ہوئی ہیں۔
 
 
آپ نے اپنی بات جاری رکھی کہ غزہ کے سادہ لوح اور معصوم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ ان کی تقدیر نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے رب سے ایک شہید اور  اکیسویں صدی کے ظالموں پر نسل کشی اور اجتماعی ہولوکاسٹ کے جرائم کے گواہ کے طور پر ملیں گے۔ وہ صدی  جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا: کہ یہ علم، ترقی اور تقدم کی صدی ہے، اور انسانی اخلاقیات، آزادی، جمہوریت، انسانی حقوق کی صدی ہے، اور اس طرح کے دیگر اکاذیب  اور اور جھوٹ جن کا ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مشاہدہ کیا ہے۔ وہ انہیں اذھان اور حقیقت میں ثابت حقائق تصور کرتے تھے، چنانچہ آج جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ہے: ( ان کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا،) [نور: 39].‏
 
شیخ الازہر کا خیال تھا کہ تیسرا عنصر یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے اور عالمی معاہدے، اور ان میں سرفہرست: اقوام متحدہ کی فاؤنڈیشن، انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اور دوسری تنظیمیں جن کے قوانین اور چارٹر کے پہلے آرٹیکل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کا عہد  اور رکن ممالک کے درمیان مساوات کا اصول، طاقت کے استعمال کی ممانعت، حتیٰ کہ بین الاقوامی تعلقات میں اس کی محض دھمکی کی ممانعت، اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے مکمل پرہیز۔ کا عھد کرتے ہیں،  یہ ادارے آج بے بس ہیں، حتیٰ کہ چار طرف سے مفلوج بھی ہیں، انہیں اس بات پر عمل درآمد کرنے سے روک دیا جاتا ہے جس پر انہوں نے عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ ہمیشہ اپنی کمان، اپنی مرضی اور اپنے فیصلوں پر مغلوبت کا شکار رہا ہے حالانکہ اسے رکن ممالک کی اکثریت حاصل ہوتی ہے۔ ظالم قوتوں کی کھلم کھلا مداخلتوں سے اسے ختم کر دیا جاتا ہے  بعض اوقات سچائی کو چھپایا جاتا ہے، اور بعض اوقات اسے جھوٹ کا لباس پہنایا جاتا ہے۔
شیخ الازہر نے یہ کہتے ہوئے مذمت کی کہ:  کہ اس سے بھی بدتر اور زیادہ تلخ  امر  ایک معاون پارٹنر کے طور پر بڑی طاقتوں کی مداخلت ہے، جن کے پاس وحشیانہ طاقت کے لیے وافر رقم اور مہلک ہتھیار ہیں، وہ یقین سے جانتے ہیں کہ وہ کمزور اور ضعیف مردوں، عورتوں، بچوں اور بیماروں کو اس سے کچل دیں گے۔ یہ انہیں بھوکا مارتا ہے اور ان کے گرد ایسے دباؤ ڈالتا ہے جس کو وہ برداشت نہیں کر پاتے، یہاں تک کہ جب وہ اپنے گھر اور مال چھوڑ کر سڑکوں پر بھٹکتے ہیں تو ان کے سروں پر جہنم کا عذاب ڈال دیا جاتا ہے۔ تاریخ اسے اپنے سیاہ  صفحات میں خون اور آنسوؤں کے ساتھ  ناانصافی اور تاریکی کے طور پر لکھے گی۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024