پروگرام " امام الطیب" کی "دوسری" قسط کے دوران... قول یا عمل کے اعتبار سے جس چیز پر امت کا اتفاق ہے وہی متنازعہ معاملات میں فیصلہ کن معیار ہے

برنامج الإمام الطيب رمضان ٢٠٢١.jpeg

گرینڈ امام  پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر شریف  نے   اپنے رمضان پروگرام " امام طیب" کی دوسری قسط میں انہوں نے ملت اسلامیہ کی خصوصیات پر بات کی۔ جہاں انہوں  نے دوسری خصوصیت " اعتدال"  کی بات کی۔ جسے ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں پڑھتے ہیں: {اور اس طرح ہم نے تم کو ایک درمیانی امت بنایا} (البقرۃ: 143)۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ ، یہ: "لوگوں پر  گواہی دیے گی،" ۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "درمیانی" کو "عدل" سے تعبیر کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ معتدل  قوم: سو یہ وہ قوم ہے جو "انصاف" کی صفت سے متصف ہے۔ اور اس نے "وسط" کو عدل سے  تعبیر کیا  کیونکہ یہ دو فریقوں کے درمیان  ایک درمیانی نقطہ ہے۔ سو اگر وسط ہی  عدل ہے ۔ تو اس میں خیریت اور افضلیت کے معنی لازماً شامل ہیں۔ امام  اکبر نے فرمایا:  کہ جب قرآن کریم ملت اسلامیہ کو معتدل  قوم یعنی "قوم عدل" کے طور پر بیان کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ وضاحت قوم کے ہر فرد کے لیے مقرر ہے۔ کہ اس کا ہر فرد عادل ہے۔ وہ ظلم نہیں کرتا، زیادتی نہیں کرتا اور اپنے قول و فعل میں کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ یہ تو نہ  کسی انسانی معاشرے میں  ہوا ہے - اور نہ ہی  ہوگا - بلکہ اس سے مراد قوم کے لیے  مجموعی طور پر عدل کا وصف بیان کرنا  ہے، نہ کہ اس کے لیے کلی طور پر یعنی ہر فرد کے لیے نہیں۔ اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ عدل قوم کے عمومی تصور اور  عام عنوان میں ہے۔ اور اس کے افراد  کے اعتبار سے نہیں ہے۔ اور یہ کہ آیت کریمہ بتاتی  ہے کہ اس قوم کو اللہ تعالی کی طرف سے عادل قرار دینا اسے گمراہی اور غلطی سے محفوظ رکھتا ہے۔  لہذا اس کے بارے میں کہ اس کا اختتام کسی رائے ، قول، عمل، یا شریعت کے اجماع پر ہوتا ہے اور یہاں سے امت کا اجماع شریعت کے مصادر میں سے ایک مصدر قرار پایا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی کہ ان کی امت مجموعی اعتبار سے (نہ کہ کلی اعتبار سے ) خطا اور گمراہی سے پاک ہے۔ اور یہ کہ کوئی بھی ایسا عمل جس پر امت متفق ہو اور اور وہ عمل حجت بھی ہے ، بلکہ متنازعہ معاملات میں امت  کا قول یا فعل فیصلہ کن معیار ہے۔ جو مسلمانوں کی زندگیوں میں رونما ہوتے ہیں، جن کے بارے میں بعض کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے اور اس کے کرنے میں اسلامی شریعت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے اور اسے رد کر دینا چاہیے۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی جو آپ کے اس ارشاد کی صورت  میں ہے بڑی واضح اور صریح  ہے۔  "خدا اس امت  کو گمراہی پر جمع  نہیں کرے گا ۔ اگر تم اختلاف  دیکھو تو سواد اعظم کی پیروی کرو"۔ اور سواد اعظم امت  کے جماھیر اور عام لوگ ہیں۔ اور جو چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ امت – مجموعی اعتبار  سے - ایک ایسی امت  ہے جس کو خدا نے عدل و انصاف کی ضمانت دی ہے اور اسے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دی ہے، وہ یہ چیز ہے کہ اللہ تعالی نے اسے دوسری امتوں  پر گواہی دینے کے لائق بنایا ہے۔
پروگرام " امام طیب" امام اکبر  کے "فیس بک اور ٹویٹر" پر دو آفیشل پیجز  اور ان کے  آفیشل یوٹیوب چینل، اور سوشل میڈیا پر ازہر شریف کے آفیشل پیجز کے علاوہ مصر اور اسلامی دنیا کے متعدد چینلز، ریڈیو اسٹیشنوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر نشر کیا جاتا ہے۔  ۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025