شیخ الازہر: اللہ کا حسن ہر اُس چیز میں موجود ہے جو اُس نے پیدا کی ہے
شیخ الازہر:
الٰہی حسن صرف ظاہری خوبصورتی نہیں، بلکہ تخلیق کی مہارت اور درست انداز میں تقدیر ہے
مخلوقاتِ دنیاوی میں بھی اللہ کی حکمت اور نگرانی موجود ہے تاکہ تضاد رکھنے والی اشیاء ایک دوسرے پر غالب نہ آ جائیں
"الحکیم" کا مطلب ہے: ہر چیز کو مہارت سے پیدا کرنے والا، جیسا کہ انسان کو مٹی سے تخلیق کر کے عقل و شعور عطا کیا
شیخ الازہر نے اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام "الحکیم" کی تشریح پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اسم "الحکیم" کا صرف دو ہی وزنی مفہوم لیے جا سکتے ہیں: "فعيل" کے وزن پر، جیسے: "عليم" (جاننے والا) "مُفْعِل" کے وزن پر، جیسے: "مُحكِم" (یعنی وہ جو کسی چیز کو مضبوطی اور مہارت سے بنائے) اور "مُحكِم" کے مفہوم میں "إتقان" یعنی تخلیق کی کامل مہارت اور "حسنِ تقدیر" شامل ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا: ("وہ ذات جس نے ہر چیز کو بہترین انداز میں پیدا کیا، اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی") شیخ الازہر نے وضاحت کی کہ اللہ کا حسن محض ظاہری خوبصورتی یا جمال نہیں، بلکہ تخلیق کی درستگی اور مقصدیت ہے۔ حتیٰ کہ وہ مخلوقات جن میں ہمیں کوئی ظاہری حسن نظر نہیں آتا، جیسے کہ کیڑے مکوڑے یا ناپسندیدہ مخلوقات، ان میں بھی الٰہی حسن موجود ہے — کیونکہ یہ اپنے نظام اور فائدے کے تحت مکمل اور درست انداز میں پیدا کی گئی ہیں۔
شیخ الازہر، امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، نے رمضان کے سلسلہ وار پروگرام "الإمام الطيب" کی بیسویں قسط میں نشاندہی کی کہ کچھ لوگ جب ناپسندیدہ مخلوقات کو دیکھتے ہیں تو اس میں اللہ کی قدرت اور حکمت نہیں دیکھ پاتے، حالانکہ وہ بھی اللہ کی موجودگی پر اتنی ہی واضح دلیل ہیں جتنی کہ پہاڑ، زمین، اور آسمان — کیونکہ اُن میں بھی تخلیق کا ایک حیران کن نظام، ترتیب اور مقصدیت پائی جاتی ہے، اور یہی علم رکھنے والوں کے لیے دلیل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا: (جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، اور نہ اُس نے کوئی بیٹا بنایا، اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے، اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کی ناپ تول مقرر کی۔) یہ آیت، پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان {أحسن كل شيء خلقه} (اس نے ہر چیز کو بہترین طریقے سے پیدا کیا) کی وضاحت کرتی ہے کہ اس سے مراد ہے: حسنِ تقدیر (یعنی اندازہ اور پیمائش کے ساتھ پیدا کرنا)، خلقت میں مہارت اور ترتیب، نہ کہ محض ظاہری شکل و صورت یا خوبصورتی۔
اسی وجہ سے جب ہم ان مخلوقات کو دیکھتے ہیں، تو دل بے ساختہ پکار اٹھتا ہے: "سبحان اللہ!"(اللہ پاک ہے!)
انہوں نے "إتقان" یعنی مہارت سے مراد تحفظ (Protection) لیا۔ انہوں نے مثال دی کہ انسان کے جسم کا نظام کس قدر دقیق ہے کہ جسم کی حرارت 37°C پر متوازن رکھی گئی ہے، اور اگر یہ محض 3 درجے بڑھ جائے تو انسان بیمار ہو جاتا ہے یہ توازن اللہ کے اتقانِ خلق کا واضح ثبوت ہے۔ اسی طرح پھولوں کے تلقيح (Pollination) کے نظام میں بھی اللہ کی مہارت نمایاں ہے کچھ پھول ہواؤں سے بار آور ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں رنگ یا خوشبو کی ضرورت نہیں ہوتی ہے جبکہ کچھ پھول حشرات سے بار آور ہوتے ہیں، اس لیے اللہ نے انہیں خوشبو اور رنگت دی تاکہ وہ کیڑوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں
آخر میں شیخ الازہر نے کہا کہ یہی وہ بات ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں "اتقان" (کمال درجہ کی مہارت) اور "حُسنِ تقدیر" (بہترین اندازے اور ترتیب) سے مراد ہے: "جس نے ہر چیز کو بہترین انداز سے پیدا کیا، اور انسان کی تخلیق کی ابتداء مٹی سے کی۔" کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا، مگر اُس میں عقل، شعور، احساس، جذبات، محبت اور غصہ جیسی صفات رکھ دیں — جو مٹی کی فطرت سے بالکل مختلف ہیں۔ یہی روح کا نفخ، اور ان غیر مادی صفات کا انسان میں موجود ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے مثال مہارت سے پیدا کیا۔ پس اللہ "حکیم" ہے، یعنی ہر چیز کو بہترین اور حکیمانہ انداز میں پیدا کرنے والا۔