بسم الله الرحمن الرحيم
اس خدا کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے
اختتامی بیان:
اسلامی افکار کی تجدید کے لئے منعقدہ ازہر کانفرنس
الحمدُ للهِ، والصَّلاة والسَّلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومَن تبع هديه إلى يوم الدين.. وبعد؛
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لئے ہیں، ہمارے آقا، اللہ کے رسول وپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، ان کے اہل خانہ اور ان کے تمام صحابل کرام پر درود وسلام نازل ہو اور قیامت تک آپ کی پیروی کرنے والے تمام اشخاص پر بھی درود وسلام نازل ہو ۔۔۔
مختلف میدانوں میں لوگوں کے مفادات کی حصولیابی، رونما ہونے والے نئے مسائل کے سلسلہ میں شریعت پر عمل کرنے اور دینی امور کے سلسلہ میں تجدید کے طریقۂ کار کو اختیار کرنے کے مقصد سے ازہر شریف نے "تجدید فکر اسلامی" کے موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے ایک عالمی کانفرنس میں دنیا کے ممتاز علماء مسلمین کو دعوت دی ہے اور یہ کانفرنس 2 - 3 جمادی الاخر 1441ہجری مطابق 27 - 28 جنوری 2020ء کو نصر سٹی میں واقع الازہر کنونشن سینٹر میں منعقد ہوئی ہے اور یہ کانفرنس صدر جمہوریہ کی نگرانی اور ان کی افتتاحی گفتگو سے شروع ہوئی ہے جسے وزیر اعظم مصطفى مدبولی نے ان کی نیابت کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔
دو دن کے دوران اس کانفرنس میں گفت وشنید کے سات سیشن ہوئے ہیں جن میں تجدید کے امور اور اس سے متعلق بہت سے مسائل کے سلسلہ میں تبادلۂ خیال کیا گیا ہے۔
صدیوں سے ازہر شریف جس راہ اعتدال پر گامزن ہے اسی معتدل منہج کے مطابق اس کی فکری اور فقہی تجدید کے سلسلہ کو مکمل کرنے کے مقصد سے امت اسلامیہ کے علماء نے ازہر شریف کے اسٹیج سے پوری دنیا کے لئے مندرجہ امور کا اعلان کیا ہے:
لوگوں کے مفادات اور ضروریات کو پورا کرنے کے مقصد سے ہر زمانہ میں رونما ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لئے تجدید کا طریقہ اختیار کرنا اسلامی شریعت میں ایک لازمی اور اہم بات ہے۔
قطعی نصوص کے ثبوت اور اس کی دلالت کے سلسلہ میں کسی بھی صورت میں تجدید کا طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا ہے اور جہاں تک ظنی الدلالہ نصوص کی بات ہے تو ان میں اجتہاد کیا جا سکتا ہے اور ان میں زمان ومکان اور لوگوں کے عرفوں کے بدل جانے کی وجہ سے فتووں میں تبدیلی آسکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ان میں تجدید شریعت اسلامیہ کے مقاصد، اس کے عام قواعد وضوابط اور لوگوں کی ضروریات کی روشنی میں ہو۔
تجدید کا کام بہت ہی نازک کام ہے اور اس کام کو صرف اور صرف راسخین فی العلم علماء ہی انجام دے سکتے ہیں اور نااہلوں کو اس کام میں لگنے سے پرہیز کرنا لازمی ہے تاکہ تجدید ہلاک وگمراہی کا سبب نہ بن جائے۔
انتہاپسند فریق اور تشدد پسند دہشت گرد جماعتیں تجدید کا انکار کرتی ہیں اور ان کے دعوے مفاہیم کی غلط بیانی اور شرعی مصطلحات کی تبدیلی پر قائم ہوتے ہیں، جیسا کہ حکم، حاکمیت، ہجرت، جہاد، قتال اور اپنے مخالفوں کے ساتھ تعامل کرنے کے سلسلہ میں ان کا موقف ہے اور وہ عزت وآبرو اور جاون ومال کے خلاف کئے جانے والے جرائم کے ذریعہ دین کی بنیادی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اسی چیز نے اہل مغرب اور اہل مشرق کے نزدیک اسلام اور اس کی شریعت کی تصویر کو بگاڑ دیا ہے اور اسی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے ان کے منحرف افعال کو احکام شریعت کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور مغرب میں اسے ہی اسلاموفوبیا کے نام سے جانا جاتا ہے لہذا اب اداروں اور سماج ومعاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان جماعتوں کے شرور وفتن سے نجات پانے کے لئے متحرک اور فعال ممالک کی مدد اور تعاون کریں۔
ان جماعتوں کے نزدیک فکری غلطی یہ ہے کہ انہوں نے عقائد اور عملی احکام کو خلط ملط کر دیا ہے جیسے کہ انہوں نے گناہ کرنے کو کفر قرار دے دیا ہے اور بعض جائز چیزوں کو لازمی فریضہ قرار دے دیا ہے اور اسی وجہ سے لوگوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسلام اور شریعت اسلامیہ کی شبیہ خراب ہو گئی ہے۔
ان انتہاپسند جماعتوں کے نزدیک حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ حکومت صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لئے ہے اور انسان میں سے جس نے بھی حکومت کیا گویا کہ اس نے اللہ رب العزت کی سب سے اہم خصوصیت الوہیت میں تنازع اختیار کیا اور جس نے اللہ رب العزت سے تنازع اختیار کیا وہ کافر ہے اور وہ مباح الدم ہے۔ ان کے نزدیک قرآن شریف اور حدیث شریف میں ذکر کردہ ان نصوص میں واضح تحریف کے ساتھ کام لیا گیا ہے جن میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ حکومت انسان کی ہوتی ہے لیکن اہل حل وعقد سے جو اجتہادی احکام صادر ہوتے ہیں ان کا تعلق اللہ رب العزت سے ہوتا ہے اور ہم یہاں ابن حزم کی بات کا حوالہ دیتے ہیں کہ اللہ کی حکومت کا مطلب یہ ہے کہ حکومت غیر اللہ کی ہے اور اس کا تذکرہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں ہے۔۔ ترجمہ (تم مرد کے اہل میں سے ایک حکم کو بھیجو اور اسی طرح عورت کے اہل خانہ میں سے ایک حکم کو بھیجو)۔۔۔ اور اسی طرح دوسری آیت میں بھی ہے کہ (تم ہی میں سے دو انصاف کرنے والے فیصلہ کریں گے)۔
اس بنیاد پر اہل سنت کے عقیدہ کو بیان کرکے حاکمیت کے مفہوم کے سلسلہ میں لوگوں کی فکر وثقافت کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ شریعت کے قواعد کے مطابق انسان کا فیصلہ یا اس کی حکومت اللہ رب العزت کی حاکمیت کے مخالف نہیں ہے بلکہ وہ اس کا تعلق اسی سے ہے۔
کسی کو بھی کافر قرار دینا ایک ایسا فتنہ ہے جس سے سماج ومعاشرہ کو ہر زمانہ میں دوچار ہونا پڑا ہے اور یہ بات وہی کہ سکتا ہے جو اللہ رب العزت کی شریعت کے خلاف جرءت کر سکتا ہے یا اس کی تعلیمات سے جاہل اور نابلد ہے، شریعت اسلامیہ میں بیان کیا گیا ہے کہ کسی کو بھی کافر قرار دینا اسی پر واقع ہوگا اور وہ اس کا گناہ گار ہوگا اور کسی کو کافر قرار دینا دل کے سلسلہ میں فیصلہ کرنا ہے اور یہ اللہ رب العزت کے ساتھ خاص ہے اور اس کے علاوہ کسی کو بھی اس کا حق نہیں ہے اور اگر کسی نے کوئی لفظ ایسا استعمال کیا جس میں کفر کے ننانوے وجوہات ہو سکتے ہیں اور صرف ایک وجہ عدم کفر کا ہے تو احتمال کے شبہ کی وجہ سے اس پر کفر کا فتوی نہیں لگایا جا سکتا ہے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز یقین کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے وہ یقین ہی کے ذریعہ ختم بھی ہوتی ہے۔
یہ لوگ ملک سے ہجرت کرنے کو واجب قرار دئے جانے کی جو بات کہتے ہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہوگی اور یہی سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ لوگ نوجوانوں کو اپنا ملک چھوڑ کر صحراؤں اور چٹیل میدانوں کی طرف ہجرت کرنے اور اپنے سماج ومعاشرہ سے بھاگ کر مسلح جماعتوں کے ساتھ مل جانے کی جو دعوت دیتے ہیں اس دعوت کی بنیاد دین میں گمراہی، مسلمانوں کی شریعت کے مقاصد سے ناواقفیت اور ازہر شریف کے علماء کی طرف سے اعلان کردہ شرعی حکم سے لاعلمی پر ہے۔ ان سب کا فیصلہ یہ ہے کہ ایک مسلمان دنیا کے کسی بھی اس ملک میں زندگی گزار سکتا ہے جہاں اسے اپنے جان ومال، اہل وعیال اور عزت وآبرو کے سلسلہ میں حفاظت محسوس ہوتا ہو اور وہ اپنے دین کے احکامات پر عمل کر سکتا ہو اور جہاں تک ہمارے اس زمانہ میں ہجرت کے سلسلہ میں جو صحیح شرعی فیصلہ ہے وہ گناہوں کو چھوڑنا ہے، رزق اور علم کے لئے ہجرت کرنا ہے، زمین کو آباد کرنے کی کوشش کرنے کے لئے اور اپنے ملک کو ترقی دینے کے لئے ہجرت کرنا ہے۔
الحاد اس طرح خطرناک ہے کہ وہ ادیان ومذاہب کی تقدیس کرنے اور ان کی تعلیمات کا احترام کرنے والے سماج ومعاشرے کے امن واستقرار کو ختم کر دیتا ہے اور یہ فکری جنگ کا ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعہ دینی آزادی کے نام پر ادیان ومذاہب کو منہدم کر دیا جاتا ہے اور سماجی ہم آہنگی کو کمزور کر دیا جاتا ہے اور یہی انتہاپسندی اور دہشت گردی کا براہ راست ایک سبب ہے اور سماج ومعاشرے کے لئے لازم ہے کہ وہ الحاد، اللہ رب العزت کے وجود کا انکار کرنے اور مسلمانوں کے افکار کو ڈاواں ڈول کرنے کی وجہ سے آنے والے منفی اثرات کے سلسلہ میں بیدار رہیں اور اسی طرح علماء کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ عقلی اور دنیادی دلائل اور نئے تجرباتی علوم کے نتائج کے ساتھ ساتھ اس خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تجدید کے طریقۀ کار سے باخبر ہوں کیونکہ یہ ایمانی حقائق کی تائید کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ نوجوانوں سے ملاقات کریں، ان کے ساتھ گفت وشنید کریں اور اس سلسلہ میں رابطہ کے نئے ذرائع سے فائدہ اٹھائیں۔
اسلام میں جہاد کا مطلب قتل وقتال نہیں ہے اور جو جنگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے لڑی ہے وہ جہاد کی ایک قسم ہے اور اس کا مطلب مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم وزیادتی کا دفاع کرنا ہے اور اس کا مطلب دوسرے ادیان ومذاہب کے ماننے والوں کو قتل کرنا نہیں ہے جیسا کہ یہ انتہاپسند سمجھتے ہیں اور اسلام میں ثابت شدہ شرعی حکم یہ ہے کہ دوسرے ادیان ومذاہب کے ماننے والوں کے درپہ ہونا حرام ہے اور جب تک وہ مسلمانو سے قتال نہ کریں اس وقت تک ان سے جنگ کرنا حرام ہے۔
جہاد کا حکم جس چیز سے مربوط ہے وہ قانون اور دستور کے مطابق ملک کی موجودہ حکومت ہے ناکہ اس کا تعلق جماعات اور افراد سے ہے اور اپنے لئے حق کا دعوی کرنے، لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنے، انہیں مشق کرانے اور قتل وقتال کے لئے آمادہ کرنے والی ہر جماعت زمین میں فساد مچانے والی ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے والی ہے اور حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کا خاتمہ مکمل عزم وارادہ کے ذریعہ کرے۔
اسلام میں ملک وحکومت کا مطلب وہ موجودہ دستور کے مطابق جمہوری انداز میں منتخب کردہ قومی حکومت ہے اور آج ازہر اپنے علمائے کرام کی موجودگی میں اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ اسلام میں کسی دینی حکومت کا نام نہیں ہے اور ہمارے تراث میں بھی اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جس کا ذکر ہے وہ مدینہ منورہ دستاویز کے بنود سے صراحت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے اور یہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد آنے والے خلفائے راشدین کی پالیسی رہی ہے اور جس طرح علمائے اسلام دینی حکومت کے مفہوم کو مسترد کرتے ہیں اسی طرح اس ملک وحکومت کو بھی نہیں مانتے ہیں جس کا نظام ادیان کے انکار پر قائم ہو اور وہ لوگوں کی رہنمائیوں سے دور ہو۔
خلافت ایک ایسا نظام ہے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پسند کیا اور یہ ان کے زمانہ کے اعتبار سے مناسب تھا اور اسی میں دین اور دنیا کی بھلائی تھی اور کتاب وحدیث میں کسی خاص نظام کو اختیار کرنے کے سلسلہ میں نصوص موجود نہیں ہیں بلکہ اسلام موجودہ حکومتوں میں سے ہر اس حکومت کو قبول کرتا ہے جس میں عدل وانصاف ہو، آزادی اور مساوات ہو، ملک وملت کی حفاظت کرنے کی روح ہو، مذہب وملت کے اختلاف کے باوجود تمام شہریوں کو ان کے حقوق دئے جا رہے ہوں اور دین کے کسی نظام سے متصادم نہ ہو۔
اسلام میں حاکم کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں نے اسے ملک کے دستور اور وہاں جاری نظام کے مطابق اختیار کیا ہو اور اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی عوام کے مفاد کے لئے کام کرے، ان کے درمیان عدل وانصاف قائم کرے، ملک کی سرحدوں اور داخلی امن وسلامتی کی حفاظت کرے، ملک کے وسائل کا صحیح استعمال کرے اور انہیں وسائل کے دائرہ میں شہریوں کی ضروریات کو پورا کرے۔
مکمل شہریت ایک ملک کے تمام شہریوں کا اصل حق ہے، رنگ ونسل، مذہب اور دین کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں ہے اور اسی بنیاد پر پہلی اسلامی حکومت قائم ہوئی ہے اور مدینہ منورہ کے دستاویز میں اسی کا ذکر ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس تعلیم کو زندہ کرنے کے سلسلہ میں عمل پیرا ہوں۔
دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ان کی عیدوں کی مناسبت سے انہیں مبارکبادی دینا ایک ایسی نیکی ہے جس کی دعوت اسلام نے دی ہے اور یہ انتہاپسند اس سلسلہ میں جس تحریم کی بات کرتے ہیں وہ جمود ہے بلکہ اسلام کی شریعت کے مقاصد کے خلاف ہے اور یہ وہ فتنہ ہے جو قتل وقتال سے زیادہ سخت ہے اور اس میں غیر مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا ہے اور ان کو مبارکبادی دینے میں کسی عقیدہ کی مخالفت نہیں ہے۔
ذمہ داروں پر لازمی ہے کہ وہ اس طرح کی فکر پر مشتمل میڈیا میں موجود ان مواد پر پابندی لگائیں جنہیں غیر مسلمانوں کے نزدیک مقدس اعیاد کی مناسبت سے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے ایک سماج کے افراد کے درمیان کشیدگی اور دوری پیدا ہوتی ہے۔
دہشت گرد جماعتوں اور مسلح گروہوں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم خاص طور پر شہریوں، ان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو قتل کرنا جو معاشرے اور وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور سرکاری ونجی املاک کو ہلاک کرنا یا نقصان پہنچانا یہ زمین میں فساد اور بدعنوانی پر مبنی ایسے جرائم ہیں جن کے لئے تمام شرعی، قانونی، سلامتی اور فوجی اقدامات اٹھائے جانے ضروری ہیں اور اسی طرح دہشت گرد گروہوں اور ان کی سرپرستی اور حمایت کرنے والے ان ممالک کے لئے عبرتناک عملی اقدامات کرنا بھی ضروری ہے جو ان دہشت گردوں اور باغیوں کو پناہ دیتے ہیں اور پھر انہیں ان کے ہی آبائی علاقوں کے خلاف کھڑا کر دیتے ہیں۔
منشیات اور دیگر نشہ آور چیزیں خواہ ان کا نام اور مقدار جو بھی ہو یا وہ کم ہو یا زیادہ ہو اور جو چیزیں ذہن اور طرز عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں وہ قطعا حرام ہیں لہذا ان کے استعمال اور بازار میں ان کے پائے جانے کو روکنے والے تمام تعلیمی، ثقافتی، دعوتی اور حفاظتی اقدامات کرنے ضروری ہے اور ان کے مالکان اور ان کو فروغ دینے والوں کے خلاف عبرتناک پابندیاں عائد کرنا بھی ضروری ہے اور نشہ کے علاج کے سلسلہ میں جو مراکز ہیں ان کی مدد کرکے ان کے وسائل میں اضافہ کیا جائے تاکہ یہ مراکز زیادہ سے زیادہ نشہ آوروں کا علاج کرکے ان کو معاشرے میں ضم کر سکیں اور اس معاملہ سے متعلق اداروں پر لازم ہے کہ وہ ڈراموں وغیرہ میں نشہ آور چیزوں کے تاجروں اور ان کا استعمال کرنے والوں کے مناظر کو دکھائے جانے پر روک لگائیں تاکہ نوجوان ان کی تقلید کرنے پر آمادہ نہ ہوں۔
بدعنوانی، فراڈ، اقربا پروری اور مواقع میں برابر کے افراد کے مابین غیر منصفانہ امتیاز برتنے کا مقابلہ کرنا ایک مذہبی، قانونی، معاشرتی اور ایسی اخلاقی ذمہ داری ہے جس کے لئے ہر عہدیدار جوابدہ ہے اور اسی طرح معاشروں کی ترقی اور ان کے استحکام پر اثر انداز ہونے والے نقصانات کا مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں بھی تمام اداروں کو ملک کے کردار کی حمایت کرنی ضروری ہے۔
خودکشی ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور اس جرم کی قباحت کسی انسان کا دوسرے انسان کو قتل کرنے سے زیادہ ہے کیونکہ دوسرے کو قتل کرنے والا اگر چہ ساری انسانیت کا قاتل ہے لیکن اگر مقتول کے اولیاء اس کو معاف کر دیں یا دنیا میں اسے سزا مل جائے تو وہ آخرت کے سزا سے بچ سکتا ہے جبکہ خودکشی کرنے والا اپنے ہی گھناؤنے جرم کی وجہ سے مرتا ہے اور یہ علماء، مفکرین اور جو لوگ تعلیم وثقافت اور نوجوانوں سے وابستہ ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ اس معاملہ کا مطالعہ کریں کہ کچھ نوجوان کیوں اس جرم کا سہارا لیتے ہیں اور اس کے کیا اسباب ہیں اور وہ ہمارے مذہبی مشرقی معاشرے میں ہونے والے اس جرم کو روکنے کے لئے فوری، درمیانی اور دور رس حل تلاش کرنے پر عمل پیرا ہوں۔
بدلہ اور انتقام لینے کا جو جرم ہمارے معاشرہ میں وراثتی انداز میں رائج ہے وہ جہالت پر مبنی اور غلط ہے اور یہ ہمارے ان مہذب معاشروں کے لئے موزوں اور مناسب نہیں ہے جو آسمانی مذاہب پر یقین رکھتے ہیں اور اگر قتل کا کوئی معاملہ پیش ہوا تو اس قاتل کو سزا دینے کے معاملہ کو عدالتی ذمہ داروں پر چھوڑ دی جانی چاہئے۔۔۔ مقتول کے اولیاء کے پاس قاتل کو سزا دینے کا کوئی حق نہیں الا یہ کہ وہ معاف کردیں یا دیت لے لیں اور مقتول کے اولیاء کی طرف سے جو یہ اقدامات ہوتے ہیں کہ وہ قاتل یا اس کے کسی قریبی کو قتل کر دیتے ہیں یا قاتل کے رشتہ داروں کو ان کے گھروں سے نکال دیتے ہیں یا ان کے املاک اور جائداد پر حملہ کردیتے ہیں یہ سب بہت خطرناک جرم ہیں جن کی قباحت خودکشی سے کم نہیں ہے اور اس سے متعلق اداروں پر اس طرح کی کاروائیوں کو روکنے کے لئے تمام لازمی اقدامات کرنی ضروری ہے۔
افواہیں معاشروں کی سلامتی اور ترقی کے لئے سنگین خطرہ ہیں اور اس کا شمار ان بڑے جرائم میں ہے جن کے سلسلہ میں نصوص وارد ہوئی ہیں اور یہ شرعا حرام ہیں اور متعلقہ حکام کو اس کا تعاقب کرنا چاہئے، اس کی غلطی کو بے نقاب کرنا چاہئے اور اس خطرہ ظاہر کرنا چاہئے اور ان کے فروغ دینے والوں کے خلاف عبرتناک سزا متعین کرنی چاہئے۔
سیاحت ایک ایسا معاملہ ہے جو آسمانی شریعت کے ذریعہ ثابت شدہ ہے اور ہمیں اس کے تئیں لوگوں کے افکار اور ان ثقافت کو درست کرنا ضروری ہے اور اسی طرح حکومت پر سیاحوں کی حفاظت اور ان کے خلاف ہونے والی ہر طرح کی زیادتی یا تکلیف سے انہیں بچانے کے لئے اقدامات کرنی ضروری اور لازمی ہے اور جارحیت پسندوں کو اس سلسلے میں مقررہ سزا بھی دی جانی چاہئے اور کسی بھی ملک کے لئے جاری کردہ انٹری ویزا میں موجود حفاظتی معاہدہ پر عمل کرنا شرعا واجب ہے۔
آثار قدیمہ ایک ثقافتی وراثت ہے جو قوموں اور تہذیبوں کی تاریخ کی وضاحت کرتی ہے لہذا اس طرح کی چیزوں کو بت وغیرہ نہیں سمجھنا چاہئے جیسا کہ بعض گمراہ اصحاب افکار کا دعوہ ہے اور اس پر حملہ کرنا یا اس کی اصل نوعیت کو بدلنے والا کوئی بھی کام کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں آنے والی تمام نسلوں کی ملکیت ہے جس کی حفاظت حکومت کرتی ہے اور اس کے حق میں نظم ونسق رکھتی ہے اگرچہ اس طرح کی چیزیں لوگوں یا اداروں کی ملکیت میں پائی جائیں اور اسی لئے ملک سے باہر ان کی فروخت کرنے یا اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنی چاہئے۔
ہمارے زمانہ میں عورت کے لئے محرم کے بغیر سفر کرنا جائز ہے لیکن اس وقت جب یہ سفر پر امن ہو اور ان کے ساتھ اس سفر میں ان کی سہیلیاں بھی ہوں یا سفر کے ایسے انتظامات ہوں کہ اس میں کسی بھی طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں ہو سکتا ہے۔
ایک عورت وہ تمام ملازمتیں کر سکتی ہے جو اس کے لئے موزوں ہیں اور اس میں ملک کے اعلی عہدے بھی شامل ہیں۔
شرعی طور پر بغیر کسی وجہ سے طلاق دینے یا لینے کو حرام سمجھا گیا ہے لہذا اسلامی قانون کے مطابق اس سلسلہ میں مواخذہ ہوگا خواہ طلاق دینے والے نے اپنی خواہش سے دی ہو یا بیوی کی درخواست پر دی ہو کیونکہ اس کی وجہ سے ایک خاندان کو نقصان پہنچتا ہے اور خاص طور پر بچوں کو بہت زیادہ جھیلنا پڑتا ہے اور یہ شریعت اسلامیہ کے اخلاق کے منافی بھی ہے اور شریعت نے شادی کی وجہ سے جس دائمی استقرار کا مطالبہ کیا ہے اس میں بھی خلل واقع ہو جاتا ہے اور حتی الامکان طلاق کی انارکی سے بچنے کی کوشش کرنی لازمی ہے اور طلاق واقع ہونے سے قبل میاں بیوی کے مابین ہونے والے تنازعہ میں کسی کو فیصل بنانے کا حکم شرعا ہے اور طلاق کے معاملات سے متعلق قانونی فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے فتویٰ سے وابستہ علمائے کرام کو آسان ترین راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔
خاندانی دولت کی نشوونما میں شریک کو لازمی طور پر معاوضہ ادا کیا جانا چاہئے مثال کے طور پر اگر بیوی اپنا پیسہ اپنے شوہر کے پیسے کے ساتھ رکھتی ہے اور وہ بچے جو اپنے والد کے ساتھ تجارت وغیرہ میں کام کرتے ہیں تو ان کے حصوں کو اگر اس کی رقم معلوم ہے تو وراثت کو تقسیم کرنے سے پہلے اسے الگ کرنا چاہئے یا اگر مقدار معلوم نہیں ہے تو کسی متعینہ مقدار کے سلسلہ میں آپس میں صلح کر لینی چاہئے تاکہ کسی کے ساتھ حق تلفی نہ ہو سکے۔
آخری میں ہم ازہر شریف اپنے علماء اور مفکرین کے ساتھ صدر جمہوریہ عبد الفتاح السیسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کانفرنس کی تمام سرگرمیوں کی نگرانی کی اور اپنی افتتاحی گفتگو کی بھی پیش کی اور یہی اس کانفرنس کی کامیابی کی اہم وجہ رہی ہے۔ اسی طرح ہم ازہر شریف کی طرف سے یہاں موجود علمائے کرام، سرکاری ذمہ داران، مرد وخواتین پر مشتمل سماجی کارکنان، میڈیا کے اہلکار اور شرکت کرنے والے تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔۔۔ آخری میں ہم ازہر شریف کی طرف سے اس بات کا بھی اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ نئے مسائل کو حل کرنے کے لئے ازہر شریف کا یہ عالمی مرکز تجدید کے سلسلہ میں اپنی کوشش وکاوش کو ہمیشہ جاری رکھے گا۔
اس سے پہلے کہ ہم آپ کو الوداع کریں ہم گیمبیا کی حکومت اور اس کے وزیر عدل کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ اور تعریف کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہلاکتوں، زیادتیوں، انسانی نسل کشی اور بے گھر ہونے کی مذمت کے لئے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں ایک مربوط فائل تیار کرکے پیش کی ہے اور ہم اس کانفرنس میں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات سزا کے بغیر نہ گزر پائیں اور یہ ان جرائم پر خاموش دنیا کے لئے بدنما داغ ہو۔
آخر میں میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہم دوبارہ اس طرح کے کانفرنس میں ایک کچہ جمغ ہوں گے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خدا کامیابی وکامرانی کا نگہبان ہے
قاہرہ : 3 جمادى الآخرہ 1441ہجری - مطابق 27 جنوری 2020ء